بی جے پی ‘ فرد واحد کی بالادستی

   

بی جے پی میں آج تنظیمی رد و بدل کیا گیا ہے ۔ اس رد و بدل کے ذریعہ پارٹی نے ایک پیام دینے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح سارے ملک میں بی جے پی کی بالادستی کو یقینی بنایا گیا ہے اسی طرح پارٹی میں بھی صرف ایک فرد واحد کی بالا دستی رہے گی اور وہ وزیر اعظم نریندر مودی ہونگے ۔ پارٹی نے آج فیصلہ کرتے ہوئے مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری کو پارٹی کے اعلی ترین فیصلہ ساز ادارہ بی جے پی پارلیمانی بورڈ اور الیکشن کمیٹی سے خارج کردیا گیا ہے ۔ انہیں اس بار کمیٹی میں جگہ نہیں دی گئی ہے ۔ اسی طرح چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کو بھی اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ اس اقدام کے ذریعہ آر ایس ایس کی اعلی قیادت کو یہ پیام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ حکومت اور پارٹی میں کسی کو بھی ناقدانہ رائے کے اظہار کی اجازت نہیں رہے گی اور نہ ہی ایسا کرنے والوں کی کوئی جگہ باقی رہے گی ۔ اختلاف رائے کو برداشت بالکل نہیں کیا جائیگا ۔ نتن گڈکری کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ بی جے پی میں واحد ایسے لیڈر ہیں جو قد آور ہیں اور وہ گذشتہ آٹھ سال میں وزارت میں برقرار رہنے کے باوجود قیادت کے آگے جھکنے کو تیار نہیں ہیں ۔ وہ عوامی حلقوں اور تقاریب میں اپنے موقف کو کھل کر بیان کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ گذشتہ دنوں انہوں نے دو مرتبہ ایسے بیانات دئے تھے جس سے بی جے پی اور حکومت کو بے چینی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ایک تو انہوں نے کہا تھا کہ کبھی دل میں یہ بات آتی ہے کہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں کیونکہ آج کی سیاست عوام کی خدمت کا نام نہیں رہ گیا ہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے موجودہ جمہوری صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے آر ایس ایس قیادت کو یہ پیام دیدیا ہے کہ چاہے نتن گڈکری سنگھ سے کتنے ہی قریبی روابط رکھتے ہوں لیکن پارٹی اور حکومت میں رہتے ہوئے وہ نریندرمودی کے خلاف موقف کا اظہار کرتے ہیں تو انہیں بھی حاشیہ پر لاکھڑا کردیا جائیگا ۔ نتن گڈکری اپنے موقف کو کھل کر پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے اور ان کے بیانات سے حکومت کو الجھن کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔
شائد یہی وجہ ہے کہ اب نتن گڈکری پنے بیانات کی قیمت چکانے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔انہیں پارلیمنی بورڈ اور الیکشن کمیٹی میں کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے ۔ ملک میں یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ گذشتہ آٹھ سال میں ملک کی جمہوریت کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ سب ایک پارٹی کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ہر معاملہ میں بی جے پی کو بالادستی اور سبقت دی جا رہی ہے ۔ اور بی جے پی یا پھر حکومت میں صرف فرد واحد ہی بات ہی چلے گی اور وہ فرد واحد نریندر مودی ہیں۔ کسی بھی قائد کے پاس چاہے وہ کتنا ہی سینئر کیوں نہ ہو اور کتنا ہی زیادہ مقبول نہ ہو سوائے نریندر مودی کی خوشامد کرنے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا ہے ۔ نتن گڈکری نے اس سے اختلاف کیا تھا اور انہیں اب اس کی قیمت چکانی پڑی ہے ۔ بی جے پی میں اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی کے دور میں اختلاف رائے کو قبول کیا جاتا تھا ۔ عوام حلقوں میں نہیں بلکہ پارٹی حلقوں میں اظہار خیال کا موقع دیا جاتا تھا اور پھر جب غور و خوض کے بعد پارٹی کوئی فیصلہ کرلیتی تو سبھی اس کو قبول کرلیتے ۔ تاہم اب یہ تبدیلی آئی ہے کہ پارٹی فورم ہو یا پھر حکومتی اجلاس ہوں یا پھر عوام کے درمیان ہوں کسی کو بھی اختلاف رائے کے اظہار کی اجازت نہیں رہ گئی ہے ۔ ہر کسی کو خاموشی کے ساتھ فرد واحد کے احکام اور رائے کا احترام کرنا لازمی ہوگیا ہے ۔ کسی بھی لیڈر یا کارکن کی مقبولیت یا اس کی سیناریٹی کے کوئی معنی نہیں رہ گئے ہیں۔ اب کسی بات کے معنی ہیں تو صرف مودی اور امیت شاہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے معنی ہیں اور ایسا کرنے والے ہی منظور نظر بننے لگے ہیں۔
بی جے پی کے کارکنوں کی اکثریت کا تعلق آر ایس ایس سے ہے ۔ آر ایس ایس نے بی جے پی کی نظریاتی لڑائی کو آگے بڑھایا ہے ۔ بی جے پی میں کہا جاتا تھا کہ کسی بڑے سے بڑے لیڈر کیلئے بھی آر ایس ایس سے اختلاف رائے کی گنجائش نہیںہوا کرتی تھی لیکن اب فرد واحد کے فیصلوں نے آر ایس ایس کو بھی پیچھے کردینے کا کام کیا ہے ۔ اس صورتحال میں واضح ہوجاتا ہے کہ اب شخصیت پرستی عروج کو پہونچ رہی ہے اور جمہوری طرز عمل کو برقرار رکھنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ نتن گڈکری کی پارلیمانی بورڈ سے علیحدگی کے ذریعہ تو کم از کم یہی پیام ملتا ہے کہ پارٹی یا حکومت چاہے کچھ بھی ہو بالادستی صرف فرد واحد کی ہوگی ۔