بھارتیہ جنتا پارٹی نے 1980 سے اب تک اپنے ہندوتوا نظریہ کو فروغ دیتے ہوئے مرکز میں اقتدار کے لیے بعض سیکولر پارٹیوں کو بھی ساتھ رکھا ۔ این ڈی اے کو سرپرست گروپ بناکر نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا تو این ڈی اے کی بعض پارٹیوں کو اعتراض ہوا ، چند نے این ڈی اے سے علحدگی اختیار کرلی ۔ بہار میں جنتادل یو کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے بی جے پی نے اپنے کٹر موقف میں نرمی لائی اور نتیش کمار کو چیف منسٹر کی حیثیت سے قبول کرلیا لیکن 2019 کے عام انتخابات کے بعد بی جے پی کی قیادت کا مسئلہ پیدا ہونے لگا ۔ صدر بی جے پی کی حیثیت سے امیت شاہ نے پارٹی کو وسعت دینے میں اہم رول ادا کیا اور وزیرداخلہ بن جانے کے بعد ان کا سیاسی قد نریندر مودی سے اونچا دکھائی دینے لگا تھا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے بی جے پی کی صدارت اپنے بچپن کے دیرینہ دوست جے پی ناڈا کے حوالے کردی اور امیت شاہ اب صرف وزیر داخلہ رہ گئے ۔ امیت شاہ کو بی جے پی کی صدارت سے سبکدوش کرنے کے پیچھے کئی عوامل ہیں ۔ ان دنوں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت میں اختیارات اور برتری کی لڑائی چھڑ گئی ہے ۔ پارٹی کو داخلی طورپر امیت شاہ اور مودی کے درمیان بڑھتی خلش سے تشویش ہے ۔ بظاہر دونوں قائدین ایک ہی شہ نشین پر نظر آتے ہیں لیکن داخلی طور پر مودی اور شاہ کے درمیان سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ تنظیمی تبدیلیوں کے نام پر بی جے پی کی صدارت سے امیت شاہ کو ہٹانے کے بعد جے پی ناڈا کو یہ ذمہ داری دینے سے کئی سیاسی گوشوں میں سرگوشیاں شروع ہوچکی ہیں کہ مودی نے امیت شاہ کے اڑتے پر کاٹ دئیے ہیں ۔ بی جے پی کے لیے جے پی ناڈا کتنے مضبوط صدر ثابت ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ان کا انتخاب بی جے پی کے لیے ٹھیک نہیں ہے ۔ ملک بھر میں بی جے پی کے خلاف پیدا ہونے والی ناراضگیوں ، این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر کو واپس لینے کے لیے بڑھتے مطالبہ کے سامنے بی جے پی کی قیادت کا اس طرح تبدیل ہونا کئی معنی رکھتا ہے ۔ جے پی ناڈا نے پارٹی کے لیے پس پردہ کئی کام انجام دئیے ہیں ۔ 2014 اور 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بنانے میں انہوں نے اہم خدمت انجام دی ہے تو اب باقاعدہ پارٹی کے صدر کی حیثیت سے انہیں کھل کر کام کرنے کا موقع ملے گا ۔ آر ایس ایس سے دیرینہ وابستگی اور بی جے پی کی صدارت دونوں کو متوازن طور پر رکھنا ان کے لیے ضروری ہوگا ۔ ناڈا کو بی جے پی کی حلیف پارٹیوں یعنی این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوگا ۔ بہار میں آنے والے اسمبلی انتخابات میں ناڈا کی صلاحیتیں سامنے آجائیں گی جب کہ جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں وہاں ابھی سے مخالف حکمرانی لہر چل رہی ہے ۔ بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں پارٹی کو دوبارہ کامیاب بنانا ناڈا کے لیے بڑا چیلنج ہوگا ۔ بی جے پی کو حال ہی میں جھارکھنڈ میں شکست ہوئی ہے۔ مہاراشٹرا میں اس کو اقتدار سے دور ہونا پڑا۔ ہریانہ میں بھی بی جے پی کو حکومت سازی کے لیے حلیف پارٹیوں کی مدد حاصل کرنی پڑی ۔ مگر اب سی اے اے ، این آر سی کے مسئلہ پر بی جے پی کی کئی حلیف پارٹیوں خاص کر پنجاب کی شرومنی اکالی دل میں ناراضگی دیکھی جارہی ہے ۔ شیوسینا نے علحدگی اختیار کرلی ۔ جنتا دل یو کو بعض معاملوں میں بی جے پی قیادت سے شکایت ہے ۔ رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی نے بھی اپنا موقف تبدیل کرلیا تو بی جے پی کو آنے والے ریاستی اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کرنا پڑے گا اور یہ بی جے پی کے نئے صدر کے لیے ایک چیلنج ہی ہوگا ۔ ناڈا کی صدارت میں بی جے پی کو14 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ایسے میں انہیں پارٹی کو متوازن طریقہ سے کامیابی دلانے میں کافی محنت کرنی پڑے گی ۔ اگرچیکہ جے پی ناڈا کو خاموشی سے کام کرنے والے ورکر سمجھا جاتا ہے لیکن کیا وہ مودی کے توقعات کو پورا کرسکیں گے ، یہ وقت ہی بتائے گا ۔ امیت شاہ اور مودی کی جوڑی آگے چل کر کمزور پڑتی ہے تو ایسی صورت میں پارٹی کو درپیش امکانی چیلنجس سے نمٹنا ناڈا کے لیے مشکل ہوگا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی کے پسندیدہ صدر بی جے پی ناڈا کو پارٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا مکمل اختیار دیا جاتا ہے یا پھر انہیں صرف ایک ربر اسٹامپ پارٹی صدر تک محدود رکھا جاتا ہے ۔