بی جے پی نے مندر تحریک کا جائزہ لے لیا : ایل کے اڈوانی

   

رام پنیانی
بی جے پی نے عملاً وی ایچ پی سے مندر تحریک کا جائزہ لے لیا اور اڈوانی نے رتھ یاترا سومناتھ سے ایودھیا کیلئے شروع کی۔ رتھ یاترا جہاں سے گزرتی وہاں فرقہ وارانہ تشدد ہوتا رہا۔ سماج میں انتشار نے مسلمانوں کے خلاف نفرت میں گہرائی کو بڑھانا شروع کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین انتشار کو رام مندر مسئلہ اور اس کے بعد رتھ یاتراؤں اور آر ایس ایس و اس کی ملحق تنظیموں کے پروگراموں نے زیادہ اونچی سطح تک پہنچایا۔
رتھ یاترا کے دوران اڈوانی کو بہار میں لالو پرساد یادو نے گرفتار کیا۔ پھر بھی کئی والنٹیئرز بابری مسجد تک پہنچ گئے اور مسجد کو ممکنہ نقصان سے روکنے کیلئے اُس وقت کے چیف منسٹر اترپردیش ملائم سنگھ یادو کو فائرنگ کرانا پڑا، جس کے نتیجے میں کئی ہلاکتیں ہوئیں۔ ملائم سنگھ یادو کو اس واقعہ کے بعد جو راتھ یاترا کے اختتامی مرحلہ پر پیش آیا، ملا ّ ملائم کہا جانے لگا۔ اس کے بعد مسلم بادشاہوں کے مظالم کے خلاف بڑے پیمانے پر پروپگنڈہ چلایا گیا۔ 1990ء میں وی پی سنگھ کی جانب سے منڈل کمیشن پر عمل آوری کے بعد رام مندر مہم پر ردعمل بڑھنا شروع ہوا۔ خود اڈوانی نے بیان دیا کہ مندر کی مہم سیاسی نوعیت کی ہے۔ ایودھیا میں جہاں بابری مسجد قائم ہے، وہاں لارڈ رام کی جائے پیدائش ہونے کا عقیدہ محض چند دہے پرانا ہے۔ کارسیوا کی آڑ میں 6 ڈسمبر 1992ء کو بابری مسجد کو منہدم کردینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ دلچسپ امر ہے کہ اس انہدام کیلئے بھیم راؤ امبیڈکر کے یوم دیہانت 6 ڈسمبر کو منتخب کیا گیا۔
انہدام اور تشدد
تب چیف منسٹر یو پی کلیان سنگھ (بی جے پی) نے بابری مسجد کی حفاظت کرنے کا تحریری حلفنامہ دیا تھا۔ ایودھیا میں تقریباً تین لاکھ کارسیوک جمع ہوگئے تاکہ ’کارسیوا‘ انجام دی جائے۔ ساتھ ہی لگ بھگ بیس ہزار کارسیوکوں کو پکوان اور صاف صفائی کیلئے بھی متحرک کیا گیا۔ جب ’کارسیوا‘ شروع ہوئی، پولیس اور دیگر فورسیس کو متنازع مقام سے ہٹا لیا گیا اور منصوبہ بند انداز میں بابری مسجد کو دن دہاڑے ساڑھے پانچ گھنٹوں میں ڈھا دیا گیا۔
اس انہدام پر کانگریس کو بھی مورد الزام ٹہرایا گیا کیونکہ تب کے وزیراعظم نرسمہا راؤ نے خود کو پوجا روم میں محدود کرلیا تھا جبکہ بابری مسجد گرائی جاتی رہی۔ انہدام کے بعد بظاہر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے وہی نرسمہا راؤ نے مگرمچھ کے آنسو بہائے اور بیان دیا کہ مسجد وہی مقام پر بحال کی جائے گی۔
انہدام کے دوران اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کی قیادت میں ہجوم کو جوش دلاتے ہوئے نعرے لگائے گئے کہ ’’یہ تو کیول جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے‘‘ (یہ تو محض شروعات ہے، کاشی متھرا کا بھی وقت آئے گا)۔ منہدمہ بابری مسجد کی جگہ عارضی رام مندر غیرقانونی طور پر تعمیر کیا گیا۔ بابری مسجد انہدام کے جرم کی تحقیقات لبرہان کمیشن نے کی، جس نے کہا کہ یہ اڈوانی اینڈ کمپنی کی قیادت میں منصوبہ بند حرکت ہوئی۔ بابری مسجد انہدام کے خاطیوں کو ابھی تک سزا نہیں ملی ہے۔
اس انہدام کے بعد بالخصوص ممبئی اور دیگر شہروں جیسے سورت اور بھوپال میں بھی زبردست تشدد پھوٹ پڑا۔ زائد از ایک ہزار بے قصور لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں، اکثر مہلوکین مسلمان تھے۔ اس کے بعد بی جے پی انتخابی اعتبار سے طاقتور ہونے لگی۔ اس کے 1984ء الیکشن میں صرف دو ایم پیز تھے۔ جب اس مسئلہ پر یاترائیں شروع ہوئیں، تشدد بڑھتا رہا، بی جے پی کی انتخابی طاقت بھی بڑھنے لگی، یہاں تک کہ 1996ء میں وہ اقتدار تک پہنچ گئی اور پھر ایک مدت میں وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن گئی۔
لارڈ رام کی اُس مقام پر پیدائش عوام کے عقیدہ کا ایسا حصہ بن گیا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے تک 2010ء کے اپنے فیصلے میں یہی بات ملحوظ رکھتے ہوئے متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ 1992ء میں انہدام کے بعد سے ہر الیکشن میں رام مندر کو بی جے پی کے انتخابی ایجنڈے کا حصہ بنایا جاتا رہا۔ بی جے پی کو اقتدار ملنے پر اس کی مادر تنظیم آر ایس ایس کی وسعت بھی دگنی رفتار پر ہونے لگی۔ رام مندر کی مہم نے قومی ترجیحات کو بدل ڈالا۔ صحت، تعلیم، روزگار، عزت نفس کی ترجیحات کی جگہ شناختی مسائل جیسے گائے۔ بیف، گھر واپسی اور لوو جہاد نے لے لی۔
مستقبل کیلئے خدشات
اب ہم یہاں سے کس طرف بڑھیں گے؟ کیا مسلمان پانچ ایکڑ اراضی بطور معاوضہ قبول کریں گے؟ کمیونٹی میں بعض کی رائے ہے کہ اس پیشکش کو مسترد کردیا جائے، جبکہ بعض دیگر استدلال پیش کررہے ہیں کہ اراضی قبول کرتے ہوئے وہاں کوئی کالج یا ہاسپٹل بنانا چاہئے۔ انہدامی جتھہ کے قائدین میں سے ڈاکٹر جوشی کا کہنا ہے کہ کاشی اور متھرا کا مسئلہ نہیں اٹھانا چاہئے، آر ایس ایس پریوار میں ونئے کٹیار جیسے اشخاص زور دے رہے ہیں کہ اب کاشی اور متھرا کے مسئلے اُبھارنا چاہئے۔
دعا اور امید کی جاسکتی ہے کہ اس طرح کے مسائل نہیں اٹھائے جانے چاہئیں، کیونکہ تاریخ مختلف نوعیت کی الجھنوں سے بھری پڑی ہے اور ایسے واقعات بھی ہیں جہاں بدھسٹ وہاروں کو بدھ مت کے خلاف برہمنوں نے منہدم کیا تھا۔ ملک ایسے ایجنڈے کا متحمل نہیں ہوسکتا جبکہ بچے اسپتالوں میں آکسیجن کی قلت پر مررہے ہیں، نوجوانوں کو مناسب روزگار نہیں مل رہا ہے اور کسانوں کی بڑھتی زبوں حالی ہم سے تقاضہ کرتی ہے کہ موجودہ دور کے ان مسائل پر توجہ مرکوز کریں اور ایسے مسائل پیدا نہ کریں جو سماجی ترقی میں انحطاط اور سماج کے تقسیم کا سبب بنتے ہیں۔
مساوات اور عبادت گاہوں کے معاملوں میں جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کی دستوری ضمانتوں کی تعمیل کرنے کی ضرورت ہے۔ مورتی بٹھانے سے لے کر بابری مسجد انہدام تک اور اس کے بعد فرقہ وارانہ تشدد اور نفرت کی آگ کے سارے معاملے کو پھر کبھی نہیں دہرایا جائے گا، یہی امید ہے۔ ملک فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی راہ اختیار کرے گا جس کی مثال مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیتوں نے پیش کی، اور عام لوگوں کے مسائل پر بجاطور پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
[email protected]