ہے تری عطا تو کمی ہے کیا مجھے اس جہاں خراب میں
ترے رحم کی ترے فضل کی ہے جھلک بھی ترے عتاب میں
ملک کی دو ریاستوں اور دارالحکومت دہلی کی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ بی جے پی نے گجرات میںاپنا اقتدار برقرار رکھا ہے جبکہ کانگریس نے ہماچل میں بی جے پی کو شکست دیتے ہوئے خود اقتدار حاصل کرلیا ہے ۔ اسی طرح دہلی میونسپل کارپوریشن میں بھی بی جے پی کے پندرہ سالہ اقتدار کو عام آدمی پارٹی نے شکست سے دوچار کرتے ہوئے خود میونسپل کارپوریشن میںاقتدار حاصل کرلیا ہے ۔ انتخابی مہم اور انتخابی عمل کے دوران سیاسی جماعتوںکے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔ انتخابات سے قبل بھی بی جے پی پر عام آدمی پارٹی نے الزام عائد کیا تھا کہ اس کے ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کروڑہا روپئے کی لالچ دی گئی ہے ۔ اسی طرح تلنگانہ میںبھی ٹی آر ایس کے چار ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش ناکام ہوئی اور ا ن کارندوںکو گرفتار کیا گیا جنہوں نے یہ کوشش کی تھی ۔ عام آدمی پارٹی نے دہلی کے علاوہ پنجاب میں بھی پارٹی کے ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کا الزام عائد کیا تھا ۔ عام آدمی پارٹی اور اس کے قائدین اپنی شفافیت اور صاف امیج کو عوام میں پیش کرنے کی کوشش میں اس طرح کے الزامات عائدکرتے رہے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی کی جانب سے ارکان اسمبلی ہوںیا دوسرے منتخب عوامی نمائندے ہوں انہیں خریدنے کی کوششیں کئی ریاستوںمیںکی گئی ہیں۔ کرناٹک ‘ مدھیہ پردیش ‘ گجرات اور کئی ریاستوں میں یہ کھیل کھیلا گیا ۔ مہاراشٹرا میں تو بی جے پی اس کوشش میں کامیاب ہونے کے بعد خود اقتدار میں حصہ دار بن بیٹھی ہے ۔ تاہم عام آدمی پارٹی کا جہاں تک سوال ہے وہ بی جے پی کی اسی شبیہہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ بی جے پی کے خلاف الزامات عائد کرنے کے علاوہ کوئی کارروائی عام آدمی پارٹی کی جانب سے نہیںکی گئی ہے ۔ پارٹی کا یہ کہنا ہے کہ دہلی میں اسے پولیس پر کنٹرول حاصل نہیں ہے اسی لئے وہ کچھ نہیں کرسکتی صرف راز افشاء کرتی ہے ۔ پنجاب میں حالانکہ پولیس ریاستی حکومت کے ہاتھ میں ہے لیکن وہاں بھی کچھ نہیں کیا گیا ۔
جہاں تک تلنگانہ کی بات ہے تو ٹی آر ایس کی جانب سے ارکان اسمبلی کی خریدی کی کوشش کو رنگے ہاتھوں بے نقاب کیا گیا ۔ جس فارم ہاوز میں یہ کارروائی ہونے والی تھی اس فارم ہاوز پر دھاوے کئے گئے ۔ ایسی کوشش کرنے والوںکو گرفتار کیا گیا ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے اور انہیں جیل بھیجا گیا ۔ عدالتوںمیں یہ معاملات ابھی زیرالتواء ہیں۔ عدالتوں نے اب تک اس پر حسب قانون مناسب احکام جاری بھی کئے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے کئی بار بی جے پی پر اس طرح کے الزامات عائد کئے ہیں لیکن کوئی قانونی کارروائی نہیں کی ہے ۔ صرف میڈیا میں تشہیر کرتے ہوئے الزامات عائد کئے ہیں۔ دہلی کی اگر بات کی جائے تو یہ عذر ہے کہ پولیس دہلی حکومت کے تحت نہیں ہے ۔ تاہم عدالتوں کا دراوزہ سارے ملک میں کھلا ہے ۔ جو شکایات ہیں اور ان کے جو کچھ بھی ثبوت عام آدمی پارٹی کے پاس دستیاب ہیں ان کے ساتھ عدالتوں سے رجوع ہوا جاسکتا ہے ۔ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ تاہم ابھی تک عام آدمی پارٹی نے ایسا کیا نہیںہے ۔ صرف میڈیا میں تشہیر کرتے ہوئے الزامات عائد کئے گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلسل الزامات کے باعث اب یہ شبہات پیدا ہونے لگے ہیں کہ دونوں ہی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں اور الزام تراشیاں کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ڈھال بننے کی بھی کوشش کر رہی ہیں اور ان کے درمیان خاموش مفاہمت کے شبہات کو بھی تقویت ہونے لگی ہے۔ یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے ۔
عام آدمی پارٹی کے تعلق سے الزام عائد ہونے لگا ہے کہ اس نے گجرات میں اپنا کیڈر نہ ہونے کے باوجود جس طرح سے اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کیا اس کا واحد مقصد بی جے پی کی جیت میں رول ادا کرنا اور کانگریس کے ووٹ شئیر کو نقصان پہونچانا تھا ۔ انتخابی نتائج سامنے آچکے ہیں اور یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ کانگریس کو کن جماعتوں کی وجہ سے نقصان ہوا ہے اور بی جے پی کو اتنی بھاری جیت کس طر ح سے حاصل ہوئی ہے ۔ شائد اسی تاثر کو عوام کے ذہنوں سے محو کرنے کیلئے ایک بار پھر سے عام آدمی پارٹی نے بی جے پی پر دہلی میں اس کے کونسلرس کو خریدنے کی کوشش کا الزام عائد کیا ہے ۔ اگر ان الزامات میں واقعی سچائی ہے تو پھر پارٹی کو قانونی کارروائی کرنی چاہئے ۔ پولیس میں شکایت درج کروائی جاسکتی ہے اور عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جاسکتا ہے ۔ پارٹی کو ایسا ضرور کرنا چاہئے ۔
ٹی آر ایس سے بی آر ایس
تلنگانہ کی تشکیل کیلئے جدوجہد کیلئے وجود میں آئی ٹی آر ایس اب اپنا وجود کھوچکی ہے اور یہ بی آر ایس بن چکی ہے ۔ الیکشن کمیشن سے بھی پارٹی کو بی آر ایس میں تبدیل کرنے کی منظوری مل چکی ہے ۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ٹی آر ایس کا وجود اس دن ختم ہوا جس دن تلنگانہ کی تشکیل کا عمل باضابطہ انداز میں شروع ہوا تھا ۔ ٹی آر ایس نے خود کو تلنگانہ کی چمپئن کے طور پر پیش کرتے ہوئے تلنگانہ عوام کی تائید حاصل کی تھی ۔ ان کے ووٹ لئے تھے اور اقتدار حاصل کیا تھا ۔ دوسری معیاد میں بھی ٹی آر ایس کو کامیابی ملی ۔ الیکشن کمیشن سے مکتوب منظوری ملنے کے بعد پارٹی کو یہ اختیار تھا کہ وہ کسی بھی دن پارٹی کے نام کو بی آر ایس کرنے کے دستاویز کو قطعیت دیتی ۔ تاہم 9 ڈسمبر کوہی ایسا کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ اسی دن تلنگانہ کی تشکیل سے اتفاق کا اعلان کیا گیا تھا ۔ جو پارٹی تلنگانہ کی تشکیل کے مقصد سے قائم ہوئی تھی اس نے اپنا وجود ہی تاریخی دن میں کھودیا ۔ اس سے تلنگانہ کے تئیںپارٹی کے جذبہ کی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے ۔ تشکیل تلنگانہ کے اعلان کا دن انتہائی اہمیت کا حامل تھا ۔ اس سے گریز کیا جانا چاہئے تھا تاہم تشکیل تلنگانہ کے دن ہی پارٹی کا نام بدلا گیا جو شائد تلنگانہ عوام کیلئے گراں ثابت ہوسکتا ہے ۔ ایسا فیصلہ کرنے سے پارٹی کو گریز کرنا چاہئے تھا ۔ تلنگانہ عوام کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے 9 ڈسمبر کے تاریخی دن نام کی تبدیلی کرتے ہوئے عوامی جذبات کو مجروح ضرور کیا گیا ہے ۔ عوام اس پر کیا رد عمل ظاہر کرینگے یہ فی الحال کہا نہیں جاسکتا۔