جن کو معلوم ہے یہ راز ، وہ کس طرح کہیں
عشق نے کس کو مِٹایا ، کسے آزاد کیا
بی جے پی کا انتخابی منشور
بی جے پی نے مجوزہ لوک سبھا انتخابات کیلئے اپنا تازہ انتخابی منشور جاری کردیا ہے ۔ اس منشور میں دوبارہ نئے جملے شامل کئے گئے ہیں اور پارٹی نے گذشتہ انتخابات میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل کے تعلق سے کوئی رپورٹ کارڈ پیش نہیں کیا ہے ۔ بی جے پی نے سابقہ وعدوں پر مکمل خاموشی اختیار کرتے ہوئے عوام کو نئے وعدوں سے راغب کرنے کی کوشش کی ہے اور بیشتر وعدے ایسے بھی ہیں جن کو گذشتہ انتخابات میں عوام کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اب انہیں ایک نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے اس بار بھی اپنے منشور کے ذریعہ کٹر ہندوتوا سوچ کو واضح کردیا ہے ۔ بی جے پی نے گذشتہ انتخابات میں دئے گئے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ کو عملا ترک کردیا ہے ۔ اچھے دن کا وعدہ بھی بی جے پی کو یاد نہیں رہا ہے ۔ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے مسئلہ کو کہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ کالا دھن واپس لانے کی بات بھی بی جے پی فراموش کرگئی ہے ۔ اس بار کے منشور میں بھی حسب عادت بی جے پی نے کٹر ہندوتوا سوچ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی اپنی کارکردگی کی اساس پر نہیں بلکہ مذہبی جذبات کے استحصال کے ذریعہ ہی کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی نے منشور میں حسب روایت رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کیا ہے ۔ اس وعدہ کو اس انداز سے دہرایا جا رہا ہے جیسے یہ ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی اہم سنگ میل ہو ۔ مذہبی جذبات کے استحصال ہی کے مقصد سے بی جے پی نے تین طلاق اور کثرت ازدواج کو غیر قانونی قرار دینے قانون سازی کا وعدہ بھی کیا ہے ۔ حالانکہ ان مسائل سے بھی قوم کی ترقی یا ملک کے استحکام یا پھر قوم پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ حالات کی تبدیلی کے اشاروں کے باوجود بی جے پی اپنے سیاسی مخالفین کو اپنا دشمن سمجھنے کی روایت کو ترک کرنے کو تیار نظر نہیں آتی ۔ منشور میں بھی اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔جس طرح سے بی جے پی کے قائدین اپنے ہی منشور کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آر ہے ہیں یہ بھی ایک حکمت عملی کا حصہ ہے اور اسی رائے کو عوامی رائے قرار دینے کی کوشش کی جائیگی ۔
گذشتہ انتخابات کی مہم کے دوران نریندر مودی نے عوام سے کہا تھا کہ کانگریس کو انہوں نے حکومت کیلئے 60 سال دئے تھے اور انہیں 60 مہینے ( پانچ سال دیں ) ۔ اس نعرہ کے ذریعہ انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی ان کے پاس ملک کے تمام مسائل کا حل موجود ہے ۔ اب انہیں اپنی معیاد کے خاتمہ کے بعد عوام کو 60 مہینوں کی کارکردگی سے واقف کروانے کی ضرورت تھی ۔ یہ واضح کرنا چاہئے تھا کہ انہوں نے حسب وعدہ مثالی کارنامے انجام دئے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ مودی اور ان کے ہمنوا سابقہ وعدوں کو یاد بھی کرنا نہیں چاہتے اور ساتھ ہی عوام کو بھی یاد دلانے کے حق میں نہیں ہیں ۔ پرانے وعدوں کو فراموش کرتے ہوئے ان کا کوئی تذکرہ کئے بغیر نئے وعدے کرتے ہوئے اور مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے ‘ سماج میں نفرت کی خلیج کو بڑھاتے ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے اور اس کی جھلک پارٹی کے منشور میں بھی واضح طو رپر دکھائی دیتی ہے ۔ منشور میں شامل مسائل کے ذریعہ بی جے پی نے یہ واضح اعتراف کرلیا ہے کہ اس کے پاس عوامی مسائل کی بنیاد پر انتخاب لڑنے کا حوصلہ نہیں ہے اور وہ صرف مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اور سماج میں نفرت اور تفریق پیدا کرتے ہوئے ہی کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے حالانکہ یہ کوشش ملک کیلئے اچھی نہیں ہے ۔
مودی اور بی جے پی نے گذشتہ پانچ سال میں ملک کے عوام کو سہولیات سے زیادہ تکالیف پہونچائے ہیں۔ نوٹ بندی کے ذریعہ معیشت کو تباہ کردیا گیا ۔ جی ایس ٹی کے ذریعہ چھوٹے کاروبار ختم کردئے گئے ۔ سالانہ دو کروڑ نوکریاں دینے کی بجائے لاکھوں روزگار ختم کردئے گئے ۔ کالا دھن واپس آنے کی بجائے ملک کا پیسے بیرونی ملکوں کو منتقل کرکے مودی کے ہمنوا تاجر فرار ہوگئے ۔ عوام کے کھاتے میں محض جملے آئے ہیں۔ اس صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملک کے عوام کو فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ حقیقت اور جملہ بازیوں میں فرق کو سمجھنے کی اور عوام سے محض کھلواڑ کرنے والوں کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے ۔