بی جے پی کا ’’مشن تلنگانہ‘‘، 10 لوک سبھا حلقوں پر زعفرانی پرچم لہرانے کی تیاری

,

   

سیکولر ووٹ کی تقسیم پر توجہ، فرقہ وارانہ کشیدگی سے مسلمانوں کو رائے دہی سے دور رکھنے کا منصوبہ، ووٹوں کی تقسیم روکنے کی ضرورت

حیدرآباد 2 اپریل (سیاست نیوز) مرکز میں تیسری مرتبہ اقتدار کا خواب دیکھنے والی زعفرانی طاقتوں نے تلنگانہ پر توجہ مرکوز کی ہے۔ شمالی ہند کی ریاستوں میں عوامی مقبولیت میں کمی کے زیراثر بی جے پی نے جنوبی ہند کی ریاستوں کو اپنے مضبوط گڑھ میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی تنظیمیں ’’مشن تلنگانہ‘‘ کے تحت لوک سبھا کی 10 نشستوں پر زعفرانی پرچم لہرانے کی تیاری کررہی ہیں۔ بی جے پی جس کے گزشتہ لوک سبھا میں تلنگانہ سے 4 ارکان تھے وہ مزید 6 کا اضافہ کرنا چاہتی ہے تاکہ آئندہ اسمبلی انتخابات میں ایک مضبوط طاقت بن کر اُبھر سکے اور تشکیل حکومت میں بی جے پی کی حصہ داری رہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ دیگر ریاستوں میں غیر بی جے پی حکومتوں کو جس طرح غیر مستحکم کیا گیا اُسی طرح تلنگانہ میں بھی حکومت سازی میں اُس کا اہم رول رہے۔ لوک سبھا کی 10 نشستوں پر کامیابی کا منصوبہ کئی اعتبار سے بی جے پی کے ارادوں کو ظاہر کرتا ہے۔ تلنگانہ ملک کی واحد ریاست ہے جہاں فرقہ پرست طاقتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں اور عوام نے کبھی بھی بی جے پی اور اُس کی ملحقہ تنظیموں کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ 10 لوک سبھا حلقوں پر زعفرانی پرچم لہرانے کے لئے بی جے پی عوام سے رجوع ہوکر ووٹ مانگنے کے بجائے ہندوتوا ایجنڈہ اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا سہارا لے رہی ہے۔ پارٹی نے آئندہ دو ماہ کے دوران 10 پارلیمانی حلقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذریعہ ہندو ووٹ بینک مستحکم کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق بی جے پی کے نشانے پر موجود 10 لوک سبھا حلقوں میں عادل آباد، نظام آباد، ظہیرآباد، ملکاجگیری، چیوڑلہ، محبوب نگر، سکندرآباد، ناگر کرنول، میدک اور کریم نگر شامل ہیں۔ یہ تمام حلقہ جات ایسے ہیں جہاں 50 فیصد شہری علاقے ہیں اور بی جے پی کو فرقہ وارانہ ایجنڈہ عام کرنے میں دشواری نہیں ہوگی۔ بی جے پی نے کامیابی کے لئے آر ایس ایس اور دیگر تنظیموں کو میدان میں اُتار دیا ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق 10 نشستوں پر کامیابی کا نشانہ مقرر کرنے کے لئے باقاعدہ سروے کا اہتمام کیا گیا۔ سروے میں پیش قیاسی کی گئی ہے کہ اگر سیکولر کانگریس اور بی آر ایس میں تقسیم ہوتے ہیں تو بی جے پی کی کامیابی آسان ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی قیادت بی آر ایس کو کانگریس کے مقابل ایک مضبوط طاقت کے طور پر پیش کررہی ہے حالانکہ اسمبلی چناؤ میں شکست کے بعد بی آر ایس اپنے وجود کی لڑائی لڑرہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سیکولر اور بالخصوص اقلیتوں کے ووٹ تقسیم کرنے کے لئے ضروری ایجنڈے پر عمل کیا جائے گا۔ وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ نے تلنگانہ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے 10 لوک سبھا حلقوں کے بارے میں ہر ہفتہ سروے رپورٹ طلب کی جارہی ہے۔ ہر ہفتہ تبدیل ہونے والے حالات کے اعتبار سے ایکشن پلان تیار کیا جارہا ہے۔ پارٹی آئندہ 10 دن میں تلنگانہ کے لئے ہنگامی طور پر انتخابی مہم کا منصوبہ تیار کرے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ انتخابی مہم کے اسٹار کمپینرس رہیں گے۔ بی جے پی ذرائع کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں نریندر مودی کی بڑھتی مقبولیت نے بی جے پی کے ووٹ بینک میں خاطر خواہ اضافہ کردیا ہے اور سیکولر ووٹ کی تقسیم بی جے پی کی کامیابی کی اصل بنیاد بنے گی۔ بی جے پی نے پارٹی کے استحکام کے لئے بی آر ایس کے ناراض قائدین پر توجہ مرکوز کی ہے اور ابھی تک بی آر ایس کے 2 سیٹنگ ارکان پارلیمنٹ کو بی جے پی میں شامل کرانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ظہیرآباد سے بی بی پاٹل اور ناگر کرنول (ایس سی) حلقہ سے پی راملو نے بی آر ایس چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ پارٹی نے بی بی پاٹل کو ظہیرآباد سے امیدوار بنایا جبکہ ناگر کرنول میں راملو کے فرزند بھرت کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ سابق ارکان اسمبلی ایس سیدی ریڈی (حضور نگر)، اے رمیش (وردھنا پیٹ) کے علاوہ عادل آباد کے سابق رکن پارلیمنٹ جی نگیش نے بھی بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اِن تینوں کو نلگنڈہ، ورنگل اور عادل آباد لوک سبھا حلقوں سے امیدوار بنایا گیا ہے۔ بی جے پی کو امیدوار ہے کہ آنے والے دنوں میں بی آر ایس کے اور بھی عوامی نمائندے انحراف کرتے ہوئے زعفرانی چھتری میں عافیت محسوس کریں گے۔ زیادہ تر ناراض قائدین کانگریس کا رُخ کررہے ہیں جبکہ بی جے پی نے مرکز میں تیسری مرتبہ نریندر مودی کے اقتدار کا لالچ دے کر بی آر ایس قائدین کو انحراف کی ترغیب دی ہے۔ بی جے پی کے نشانہ پر موجود 10 لوک سبھا حلقوں میں تقریباً حلقہ جات ایسے ہیں جہاں اقلیتوں کی قابل لحاظ آبادی ہے۔ اقلیتوں اور کمزور طبقات اگر متحدہ طور پر رائے دہی کرتے ہیں تو بی جے پی کے منصوبے کو شکست ہوگی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق بی جے پی فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذریعہ مسلم رائے دہندوں کو ووٹ کے مرحلہ سے دور رکھنے کی کوشش کرے گی تاکہ مسلم ووٹنگ فیصد گھٹ جائے اور ہندو ووٹ بینک کی بنیاد پر زعفرانی پارٹی کامیاب ہوسکے۔ 1