!بی جے پی کیلئے آسانیاں ختم

   

Ferty9 Clinic

کتنی رقت بھری کہانی ہے
خون میں زہر دل میں پانی ہے
مرکز کی بی جے پی حکومت نے اپنے چند لیڈروں کو کام پر لگادیا ہے۔اگر ان لوگوں کا کام ملک کی خوشحالی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑا کرنا ہے تو یہ تشویشناک معاملہ ہے۔ دیگر قائدین کو وزارتیں حوالے کرکے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے قوانین کے اعلانات اور اس پر عمل آوری کے لئے اقدامات کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ گذشتہ 6 سال سے ملک کی معیشت تباہی کی طرف جارہی ہے اور برسر اقتدار طاقتیں اپنی الگ دنیا میں مگن ہیں۔ ہندوستانی اکثریتی آبادی کیلئے یہ ایک المیہ سے کم نہیں ہے کہ ان کو آنے والے دنوں میں کئی معاشی مسائل کا سامنا پڑے گا۔ ملک کا وزیر داخلہ ایک باشعور اور سمجھدار فہم و فراست کی حامل شخصیت ہونی چاہیئے۔ وزیر اعظم کے بشمول تمام کابینی ارکان کو ملک کی مجموعی صورتحال پر غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت نے اپنی ذمہ داری صرف این آر سی یا ایسی مخالف مسلم پالیسیوں کا تعاقب کرنے تک ہی محدود سمجھ رہی ہے جو کہ ارباب اقتدار کو ملک کے ہر طبقہ کی فکر رکھنے اور ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیرداخلہ کی حیثیت سے امیت شاہ کا ایک ہی ایجنڈہ این آر سی اور سی اے بی ہے۔ شہریت ترمیمی بل ہو یا نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس ( این آر سی ) یہ دو موضوعات ہی اس حکومت کے اصل ایجنڈہ بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا بی جے پی کو آسام میں ان موضوعات پر ناکامی کے بعد اسے ملک بھر میں اس طرح کی حماقت کرنے میں کامیابی ملے گی۔ آسام کا مسئلہ اور ہندوستان کے مابقی ریاستوں کے معاملے مختلف ہوسکتے ہیں۔ اگر بی جے پی اپنے اس ایجنڈہ کو ہی عزیز رکھتی ہے تو ملک کی اپوزیشن پارٹیاں جب نہیں رہیں گی خود مرکزی حکومت کی اتحادی جماعتوں نے مجوزہ ترمیمی بل کی مخالفت کی ہے۔ پارلیمنٹ میں بل کی منظوری کے مسئلہ پر این ڈی اے میں پھوٹ پائی جاتی ہے۔ ان دنوں اپوزیشن نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس کے مطابق بی جے پی کو یکا و تنہا کردیا جارہا ہے۔ بی جے پی کی دیرینہ نظریاتی حلیف شیوسینا کو مہاراشٹرا میں حکومت بنانے میں مدد کرکے اپوزیشن کانگریس۔ این سی پی نے بی جے پی کے منہ پر بدترین طمانچہ رسید کیا ہے۔ مہاراشٹرا کی سیاسی تبدیلیاں ظاہر کرتی ہیں کہ بی جے پی کے لئے من مانی فیصلہ کرنے کا دور ختم ہوگیا ہے۔ شہریت ترمیمی بل ( سی اے بی ) کے ذریعہ یہ حکومت بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان سے ترک وطن کرکے ہندوستان آنے والے غیر مسلم باشندوں کو شہریت دینے کی کوشش کی جارہی ہے یعنی یہ بل بھی سراسر مسلمانوں کے خلاف لایا جارہا ہے۔ یہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہونے والا تھا لیکن یہ بل نہ صرف تمام مذاہب کو یکساں حقوق دینے دستوری اصولوں کے مغائر ہے بلکہ اس بل کے خلاف ملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں زبردست مزاحمت بھی ہورہی ہے۔ بعض ریاستوں میں رہنے والے شہریوں کے لئے یہ بل بے چینی اور مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔ غیر مقیم ہندوستانیوں کو فکر لاحق ہوگئی ہے کہ یہ حکومت انہیں ہندوستان میں رہنے کا حق نہیں دے گی۔ بی جے پی اس طرح کی پیچیدگیاں پیدا کرکے ہندوستان کے ماباقی عوام کے لئے کیا پیام دینا چاہتی ہے یہ خود اس کو معلوم نہیں ہوگا۔ آسام میں این آر سی میں بدترین ناکام ہونے کے باوجود سارے ملک میں اسے لاگو کرنے کی باتیں مضحکہ خیز بن رہی ہیں۔ شہریت ترمیمی بل سے ایک اور نیا تنازعہ بھی پیدا ہوگا اور جو لوگ شمال مشرقی ریاستوں میں رہتے ہیں ان کے لئے مسائل بڑھیں گے اور جن لوگوں نے سی اے بی کے ذریعہ شہریت حاصل کی ہے انہیں شمال مشرقی ریاستوں سے دور رکھا جائے گا۔ اگر برسوں سے یہ لوگ ان ریاستوں میں مقیم ہیں اور انہیں یہاں سے منتقل ہونے کے لئے دباؤ بڑھ گیا تو کیا ہوگا۔ بہرحال بی جے پی نے سی اے بی اور این آر سی کے ذریعہ ملک کو خوف کے ماحول میں ڈھکیل دیا ہے اور خود بھی دستوری ذمہ داری سے بھی راہ فراری اختیار کرتی جارہی ہے۔ ملک کی چند ریاستوں کے حالیہ اسمبلی ضمنی انتخابات خاصکر مغربی بنگال میں ضمنی انتخابات سے تمام 3 حلقوں پر ترنمول کانگریس ( ٹی ایم سی ) کی کامیابی نے بی جے پی کے تمام ارادوں کو دھکہ پہنچایا ہے۔ بی جے پی کو عوام کے اس فیصلہ کے بعد سمجھ لینا چاہیئے کہ این آر سی پر کام کیا گیا تو اس سے سارے ملک میں بے چینی اور بدامنی پیدا ہوگی۔افراتفری کے ماحول میں بی جے پی حکومت کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے اسے مجوزہ این آر سی اور سی اے بی پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔