کیسے بتائوں آپ کو کن الجھنوں میں ہوں
حالانکہ دشمنوں میں نہیں دوستوں میں ہوں
مرکز اور ملک کی کئی ریاستوںمیں برسر اقتدار بی جے پی اکثر و بیشتر یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ اس کی انتخابی مشنری بہت مستحکم ہے اور وہ ہر بار کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ حالیہ برسوںمیں بی جے پی نے اپنے دعووںکو درست بھی کردکھایا تھا ۔ اب یہ کامیابیاں انتخابی مشنری کی وجہ سے ہوئیںیا پھر کوئی اور کھیل کھیلا گیا تھا یہ ایک الگ بحث ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں اکثر و بیشتر اس پر کئی تبصرے بھی کرتی رہی ہیں۔ تاہم جہاں تک بی جے پی کی انتخابی مشنری کا سوال ہے تو یہ حقیقت ہی ہے کہ وہ بہت مستحکم رہی ہے ۔ اس کے پاس نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی کوئی اور مشکل درپیش ہے ۔ انتخابات چاہے قومی سطح کے ہوں یا پھر کسی ریاست کے انتخابات ہوں بی جے پی نے ہمیشہ ہی اپنی مشنری سے بہتر اور موثر ڈھنگ سے کام لیا ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اب جموں و کشمیر اور ہریانہ میں جہاںاسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں بی جے پی کی انتخابی مشنری وہ کام کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے جس پر اسے فخر ہوا کرتا تھا ۔ گذشتہ دو دن میںدو ایسے واقعات پیش آئے ہیںجن سے بی جے پی کی مشکلات اور اس کی انتخابی مشنری کے بے اثر ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔ پہلے تو ہریانہ کے سینئر بی جے پی لیڈر و سابق ریاستی وزیر داخلہ انیل وج نے ہریانہ میں انتخابات کو ملتوی کرنے کی اپیل کی اور یہ عذر پیش کیا کہ انتخابی تواریخ سے پہلے اور بعد میں طویل تعطیلات ہیںجن کے نتیجہ میںرائے دہی کے تناسب میں کمی آسکتی ہے ۔ اس کے بعد آج بی جے پی نے جموںو کشمیر کیلئے تینوں مراحل کے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا تھا تاہم بعد میںاس فہرست سے دستبرداری اختیار کرلی گئی اور صرف پہلے مرحلے کے امیدواروں کی فہرست جاری کی گئی ۔ اس فہرست میں بھی پہلے جاری کردہ فہرست کے تین نام غائب ہوگئے اور کچھ نئے نام شامل کئے گئے ۔ ان دونوں ہی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کیلئے اب انتخابات کا سامنا کرنا اور عوام سے رجوع ہونا اس کے اپنے منصوبوں کے مطابق آسان نہیں رہ گیا ہے ۔پارٹی کوکئی طرح کی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
ویسے توکسی بھی پارٹی میں امیدواروں کا انتخاب آسان عمل نہیں ہوتا ۔ ایک ایک نشست کیلئے کئی کئی دعویدار ہوتے ہیں۔ہر دعویدار اپنی دعویداری پر اٹل رہتا ہے اور ایسے میںکسی ایک امیدوار کا انتخاب کرنا آسان نہیںرہتا ۔ تاہم جہاں تک بی جے پی کی بات ہے تو پارٹی میں امیدواروں کے انتخاب کا کام بھی مرکزی قیادت اپنے طور پر کرتی ہے اور کئی طاقتور اور مقبول عام قائدین کو انتخابات میںمقابلہ سے روک دیا جاتا ہے اور وہ کچھ بھی نہیں کرپاتے ۔ ایسے میں جموںو کشمیر کیلئے پہلے تمام تینوںمراحل کے امیدواروں کے ناموںکی فہرست جاری کرنا اور پھر اس فہرست سے دستبرداری اختیار کرلینا کوئی معمولی بات نہیںہے ۔ اس سے بی جے پی کو پیش آنے والی مشکلات کا پتہ چلتا ہے ۔ جموں و کشمیر میں بی جے پی ایک طویل وقت کے بعد انتخابات کروا رہی ہے ۔ جموںو کشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوںمیں بانٹ دیا گیا ہے اور انتخابات کے بعد ریاستی درجہ بحال ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی وہاں بہت احتیاط سے مقابلہ کی تیاری کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ اقتدار حاصل ہوجائے ۔ کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے ریاست میںاتحاد کیا ہے ایسے میں بی جے پی کیلئے اپنے منصوبے کو پورا کرنا آسان نہیںرہے گا ۔ اسی طرح اگر امیدواروں کے انتخاب کے عمل میں اس طرح کے جھول اور پس و پیش ہوتا رہا تو اس کے کیڈر پر اور عوام پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے اور پارٹی کی انتخابی مشنری انتہائی مستحکم اورمضبوط ہونے کے دعوے بھی کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔
ہریانہ میں انتخابات کو ملتوی کرنے کی اپیل کرنا اور جموں و کشمیر میں امیدواروں کی فہرست جاری کرکے اس سے دستبرداری اختیار کرلینا بی جے پی جیسی پارٹی کیلئے معمول کی بات نہیں ہے ۔ ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ بی جے پی انتخابات لڑنے میںمشکلات کا سامنا کر رہی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے ووٹ شئیر اور اس کی نشستوں کی تعداد میں جو کمی آئی ہے اس کے بعد سے پارٹی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور اب جموں و کشمیرو ہریانہ اور بعد میں جو اسمبلی انتخابات ہونگے ان میں اپنی کامیابی کے امکانات کو بڑھانا اپوزیشن کی حکمت عملی اور موثر اقدامات پر منحصر ہوگا اور اپوزیشن کو اس صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہئے ۔