بڑے خلوص سے نکلا تھا میں سفر کیلئے
اُداس کرگیا میدانِ خار زار مجھے
ملک میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کا مسئلہ توجہ حاصل کرتا جا رہا ہے ۔ عوام اس پر سرکاری فیصلے کے منتظر ہیں جبکہ کانگریس پارٹی کی جانب سے ملک کی مختلف ریاستوں میں ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اب بعض جماعتیں جو بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد کا حصہ ہیں وہ بھی ماضی میں ذات پات کی مردم شماری کی حمایت کرچکی ہیں۔ کچھ ریاستوں میں علاقائی جماعتوں کیلئے اس طرح کی مردم شماری ان کی سیاسی بقاء کیلئے اہمیت کی حامل اور ضرو ری ہوگئی ہے ۔ ان میں بہار میں نتیش کمار کی زیر قیادت جنتادل یو بھی شامل ہے ۔ نتیش کمار کی حکومت نے پہلے ہی ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کروائی ہے اور اس کے نتائج اور اعداد و شمار بھی جاری کردئے گئے تھے ۔ بی جے پی نے بہار میں اس وقت اپوزیشن میں رہتے ہوئے اس کی مخالفت کی تھی ۔ا ب بہار میں اور مرکز میں جے ڈی یو اور بی جے پی دونوں ساتھ ہیں ایسے اس مسئلہ پر دونوں میں اختلاف رائے ہے ۔ گذشتہ دنوں اس مسئلہ کی سیاسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے آر ایس ایس نے بھی اس طرح کی مردم شماری کی حمایت کی تھی ساتھ ہی کہا تھا کہ مردم شماری اور اس کے نتائج کو سیاسی مفادات کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے ۔ یہ دراصل عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق تھا کیونکہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے ہی بے شمار مسائل کا سیاسی استحصال کرتے ہوئے فائدہ اٹھایا تھا ۔اب مرکزی وزیر بھوپیندر یادو نے بھی اسی طرح کا بیان دیا ہے اورا نہوں نے الزام عائد کیا کہ کانگریس پارٹی ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے ذریعہ تقسیم کی سیاست کر رہی ہے ۔ یہ دعوی بی جے پی کی جانب سے کیا جاناانتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ کئی ایسے مسائل ہیں جن پر بی جے پی نے سیاست کی ہے اور اپنے سیاست کو چمکانے کیلئے ان کا استعمال کیا ہے ۔ عوام کو ایک دوسرے سے متنفر کردیا گیا ہے ۔ سماج کے اہم طبقات کے مابین نفرتوں کو ہوا دی گئی ہے اور دوریاں پیدا کردی گئی ہیں۔ یہ سارا کچھ سیاسی مفادات کیلئے کیا گیا ہے اور تقسیم کی سیاست کرتے ہوئے فائدہ حاصل کیا گیا ہے ۔ اب دوسروں پر اس طرح کے الزام عائد کئے جا رہے ہیں۔
یکساں سیول کوڈ ایسا مسئلہ ہے جو بی جے پی کیلئے ہمیشہ سے انتخابی موضوع رہا ہے ۔ مرکز میں دس سال اقتدار کے پورے ہوچکے اور اب بی جے پی اتحاد کے ذریعہ تیسری معیاد کیلئے حکومت کر رہی ہے ۔ اس کے باوجود پارٹی نے اس مسئلہ پر کوئی پہل نہیں کی ہے ۔ اس مسئلہ کو زندہ رکھا گیا ہے تاکہ سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔ کچھ ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں علاقائی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کیلئے ریاستی اسمبلی میں قرار دادیں منظور کروائی گئیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ پر ریاستوں میں کوئی قانون سازی ممکن نہیں ہے ۔ ایسا کرنا مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اس طرح کسی ریاست میں حالات کو اپنے موافق کرنے کیلئے ایسے اقدامات کروائے جا رہے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات سے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا سہرا اپنے سر باندھ کر فائدہ حاصل کرنے کی بی جے پی نے کوشش کی تھی ۔ حالانکہ مندر کی تعمیر میں بی جے پی کوئی رول نہیں تھا اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے تعمیر کی راہ ہموار ہوئی تھی ۔ اسی طرح بے شمار نزاعی مسائل کو مختلف ریاستوں میں ہوا دیتے ہوئے سیاسی فائدہ اٹھایا گیا ۔ نفرتوں کو ہوا دی گئی ۔ سماج کے اہم طبقات کو ایک دوسرے سے دور کردیا گیا ۔ یہی تقسیم پسندانہ سیاست تھی جو بی جے پی نے کی تھی اور اب دوسروں پر تقسیم کی سیاست کرنے کاالزام عائد کرتے ہوئے بی جے پی در اصل ذات پات کی مردم شماری کے مسئلہ پر اپنی بوکھلاہٹ کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ۔
بی جے پی پر الزام ہے کہ وہ اعلی ذات والوں کی پارٹی ہے ۔ پارٹی میں دیگر طبقات کو مناسب نمائندگی نہ دینے کا بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے ۔ اگر ملک گیر سطح پر ذات پات کی مردم شماری ہوگئی اور اعداد و شمار سرکاری طور پر سامنے آگئے تو پھر بی جے پی کیلئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں کیونکہ پسماندہ طبقات کی جانب سے ہر شئے میں حصہ داری کا مطالبہ کیا جائیگا ۔ بی جے پی ایسا کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ اسی لئے اس مسئلہ پر کوئی واضح فیصلہ کرنے کی بجائے اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس اہمیت کے حامل مسئلہ پر بی جے پی تلملاہٹ کا شکار ہوگئی ہے ۔