بی جے پی کی توقعات ادھوری

   

ہم اپنے نام کی صدیاں سنبھال رکھے تھے
انہیں گزند جو پہنچا دیا عمل کس کا
بی جے پی کی توقعات ادھوری
مہاراشٹرا اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آگئے ہیں۔ حالانکہ مہاراشٹرا میں بی جے پی اور شیوسینا کے اتحاد کو اقتدار دوبارہ مل رہا ہے تاہم جو نتائج بحیثیت مجموعی آئے ہیں وہ بی جے پی کی توقعات پر پورے نہیں اترسکے ہیں۔ بی جے پی نے دعوی کیا تھا کہ ہریانہ کی 90 رکنی اسمبلی میں اسے 75 نشستیں یعنی دو تہائی اکثریت حاصل ہوگی جبکہ مہاراشٹرا کے تعلق سے اس نے دعوی کیا تھا کہ اسے 240 سے زیادہ نشستیں 288 رکنی اسمبلی میںحاصل ہوجائیں گی ۔ بی جے پی نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ حالانکہ وہ مہاراشٹرا میں اتحاد میں انتخاب لڑ رہی ہے لیکن وہ تنہا اپنے بل پر اکثریت حاصل کر لے گی ۔ تاہم بی جے پی کی یہ توقعات پوری طرح سے ناکام ہوئی ہیں۔ مہاراشٹرا میں تمام تر کوششوں اور اہم مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف جذبات کو ہوا دینے اور ہندو مسلم کی منافرت پھیلانے اور مذہبی خطوط پر انتخاب لڑنے اور اپنے حواریوں کو استعمال کرنے کے باوجود بی جے پی توقعات کے مطابق کامیابی حاصل نہیں کرپائی ہے اور جہاں تک ہریانہ کاسوال ہے وہاں تو بی جے پی کو عوام نے عملی مسترد کردیا ہے ۔ سادہ اکثریت بھی بی جے پی حاصل نہیں کرپائی ہے حالانکہ اس نے یہاں بلند بانگ دعوے کئے تھے اور وہاں بھی ماحول کو پراگندہ کرنے اور عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی جو کچھ ممکن ہوسکتی تھیں کوششیں کی گئی تھیں۔ بی جے پی کیلئے مہاراشٹرا بھی نقصان والی ریاست رہی ہے اورا سے سابق کی بہ نسبت بلکہ لوک سبھا انتخابات کی بہ نسبت تو بہت بھاری نقصان ہوا ہے اور یہی حال ہریانہ کا بھی رہا ہے ۔ یہ بی جے پی کیلئے ایک طرح سے نوشتہ دیوار ہے جس پر پارٹی کو از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔پارٹی نے جو بلند بانگ دعوے کئے تھے ان کی قلعی کھل گئی ہے ۔ اس کے علاوہ زر خرید میڈیا نے جو ایگزٹ پولیس پیش کرتے ہوئے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کی تھی وہ بھی سارے کے سارے غلط ثابت ہوگئے ہیں اور یہ میڈیا کیلئے بھی لمحہ فکر کہا جاسکتا ہے ۔ کوئی بھی ایگزٹ پول ایسا نہیں تھا جس نے بی جے پی کے دعووں کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔
جہاں تک اپوزیشن کا سوال ہے حالانکہ یہ نتائج اسے اقتدار نہیں دلا سکے ہیں لیکن یہ ایک پہلو ضرور اہمیت کا حامل ہے کہ حکومت کے خلاف عوام میں جو رائے محسوس کی جا رہی تھی عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعہ اس کا اظہار کرنے کی پوری کوشش کی ہے ۔ انتخابات کے دوران اور عین پولنگ سے قبل جس طرح کے ہتھکنڈے حکومت کی جانب سے اختیار کئے گئے جس طرح سے ماحول کو پراگندہ کیا گیا ۔ سماج میں زہر گھولنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا گیا بلکہ ایسے مواقع پیدا کئے گئے اور عوام میں ہندو مسلم کی فرقہ پرستانہ سوچ کو ہوا دی گئی ۔ اس کام کیلئے ہر گوشے کا استعمال کیا گیا ۔ میڈیا کے بعض گوشوں نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا اور حکومت کے اس ہتھکنڈے اور حربے کو انہوں نے آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔ حکومت کی جانب سے اپنے حواریوں کا پورا استعمال کیا گیا ۔ اس سب کے باوجود مہاراشٹرا میں بی جے پی اور شیوسینا اتحاد اقتدار حاصل کرنے کے باوجود اطمینان بخش کامیابی سے دور رہا اور ہریانہ میں تو واضح طور پر بی جے پی کی حکومت کے خلاف عوام نے ووٹ دیا ہے ۔ ان نتائج کے بعد حکومت کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں ۔ عوام کو جذباتی مسائل میں الجھانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود پارٹی کو خاطر خواہ کامیابی اس کی توقعات کے مطابق حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔
جو نتائج آج سامنے آئے ہیں اس سے اپوزیشن کو حوصلہ حاصل کرنا چاہئے ۔ اقتدار سے دوری کی وجہ سے مایوس ہونے کی بجائے جو مثبت پہلو ہیں ان کا اپوزیشن جماعتوں کو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن کو یہ منصوبہ بندی کرنی چاہئے کہ عوام میں حکومت کے خلاف جو رائے عامہ ہے اس کا عوام کھل کرا ظہار کرسکیں اور جو جذباتی مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے ان سے عوام باہر نکل سکیں۔ حکومت کی تمام تر کاوشوں کے باوجود کہیں نہ کہیں رائے دہندوں نے معاشی بحران پر اپنی رائے ظاہر کی ہے ۔ رائے دہندوں نے حکومت کے حالیہ اقدامات اور پالیسیوں پر بھی اپنی ناراضگی کا اپنے ووٹ کے ذریعہ اظہار کیا ہے ۔ عوام کے دبے ہوئے احساسات کو اجاگر کرنا اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری ہے اور انہیں اپنی اس ذمہ داری کی تکمیل کیلئے کمر کس لینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے سواء ان کے پاس کوئی چارہ نہیںہے ۔