بی جے پی کی خارجہ پالیسی سے مودی کا انحراف

   

شیکھر گپتا
وزیر اعظم نریندر مودی نے 2020 کے آخری مکمل ہفتہ میں مسلمانوں اور کاشتکاروں کی برہمی کم کرنے کے لئے ان سے اہم رابطہ استوار کیا۔ یہ پہلی رسائی تھی جس میں ہندوستان کی مسلم اقلیت کو الگ تھلگ کردینے کی پالیسی سے انحراف کیا اور ان سے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ 2019 میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان کی خارجہ پالیسی سے انحراف کیا گیا۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ سنجیدگی سے 22 دسمبر کو انہوں نے رام لیلا میدان میں مخالف شہریت قانون احتجاج کے عروج کے دور میں مسلمانوں کی تعریف کی۔ ان کی بات کا لب و لہجہ اور سیاسی تناسب مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر تبدیل ہوگیا اور پارٹی کی سیاست اور کارروائیوں سے انحراف کیا گیا۔ چوتھی اہم بات یہ ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ نے نمایاں بیانات مسلم اقلیت کے بارے میں دیئے تھے اور ان کے ڈپٹی نے بھی اسی راستہ کو منتخب کیا تھا۔ مغربی بنگال میں امیت شاہ نے اپنے دورہ کے موقع پر شہریت ترمیمی قانون کی تائید میں بیانات دیئے تاہم کہا کہ اسے کچھ عرصہ کے لئے ملتوی کیا جائے گا۔ نئے قانون کے تحت قواعد و ضوابط کے تعین کی مدت عرصہ گذرا ختم ہوچکی ہے اور اب حکومت پارلیمانی کمیٹی کو تیسری بار توسیع دے چکی ہے کہ اس قانون کو کس طرح نافذ کیا جائے جبکہ وباء اپنے عروج پر ہے۔ امیت شاہ نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ اس قانون کے نفاذ کو اس وقت تک ملتوی کردیا جائے جب تک کہ ٹیکہ اندازی کی مہم کا آغاز نہ ہو جائے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے انحطاط کا احساس کرچکے ہیں کیونکہ پارٹی نے اپنے تعلقات مسلم اقلیت کے ساتھ کشیدہ کرلئے تھے علاوہ ازیں داخلی سلامتی کو خطرہ لاحق تھا کیونکہ وہ اپنی حکمت عملی پر زور دے رہے تھے۔ اس کے علاوہ دونوں فریقین نے اپنے اپنے دلائل پیش کئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کرچکے تھے اور اندرون ملک اکثریت مسلمانوں کو الگ تھلگ کردینے کی حکومت کی پالیسی پر تنقید کررہی تھی۔

وزیر اعظم نے مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کے سالانہ اجلاس کو استعمال کرتے ہوئے اقلیتوں سے روابط استوار کرنے کی کوشش کی اور یہ انتہائی اہم ہے۔ جاریہ سال کے اوائل میں یہی یونیورسٹی احتجاج کے طوفان کے مناظر اور مسلمانوں پر پولیس کی زبردستی کے مناظر دیکھ چکی ہے۔ اب مودی نے یونیورسٹی کو ’’منی انڈیا‘‘ قرار دیا اور طلبہ و اساتذہ سے اپیل کی کہ وہ دنیا بھر میں اپنے ملک کی ایک منصفانہ تصویر پیش کریں۔ وہ کئی غیر ملکی طلبہ سے بھی اپیل کررہے تھے جو علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم کے حصول کی تکمیل کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک آتے ہیں۔ جملہ 22 ہزار میں سے تقریباً 615 طلبہ غیر مقیم ہندوستانی ہیں۔ 42 افغانستان، 68 بنگلہ دیش، 66 انڈونیشیا، 49 اردن کے، 20 نیپالی، 13 فلسطینی اور ایران کے 15 طلبہ ہیں۔ ترکمانستان کے 21، یمن کے 151، عراق کے 29 اور تھائی لینڈ کے 117 طلبہ ہیں۔ امریکہ، ماریشیس، نیوزی لینڈ اور نائیجیریا کے بہت کم طلبہ ہیں۔ ہر ایک امریکہ کا دوست ملک ہے اور اہم قومی حکمت عملی میں اس سے دلچسپی ظاہر نہیں کی جاتی۔

مودی کو شخصی طور پر ان سے دلچسپی ہو نہ ہو لیکن وہ ایوارڈس اور اعزازات کسی تعصب کے بغیر تقسیم کررہے ہیں۔ سب سے اہم اور نمایاں بات یہ ہیکہ وہ اقلیت سے ربط استوار کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سرحدی علاقہ میں ہندوستانی اور چینی فوجیں ایک دوسرے کے روبرو آگئی ہیں اور پاکستان میں ترقی دیکھی جارہی ہے۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ صدر چین ژی جن پنگ پاکستان کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، عالم عرب بھی پاکستان کے ساتھ ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کے قریب ترین دوست، سرپرست اور اپنے خزانے پاکستان کی امداد کے لئے مختص کرچکے ہیں، لیکن اس سے مودی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ عالمی ماحول کو تیزی سے تبدیل کردیں۔ امت مسلمہ کو اندرونی طور پر کئی چیالنج درپیش ہیں۔ ان میں سے ایک حکومت کی مسلمانوں کے ساتھ پالیسی بھی ہے۔ دنیا میں کافی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ ٹرمپ کی میعاد ختم ہوچکی ہے اور بائیڈن تین ہفتوں کے اندر وائیٹ ہاوز میں مکین ہوں گے اور امکان ہے کہ عالم اسلام کے ساتھ ان کی پالیسی ٹرمپ سے مختلف ہوگی۔ ایران اور چین کے ساتھ بھی ان کے تعلقات میں تبدیلی آسکتی ہے۔ مسلم یونیورسٹی کی سالانہ تقریب کے دوران مودی کی تقریر کو کافی اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ اس تقریر کے اثرات مودی ۔ شیخ حسینہ تعلقات پر بھی مثبت اثر چھوڑوں گے۔ دریں اثناء ہندوستان ہر ایک کو کورونا کی مفت ویکسین فراہم کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن یہ قلب کی تبدیل نہیں ہے بلکہ غالباً حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ داخلی سیاسی کارروائیاں ان کے حکمت عملی اور خارجہ پالیسی پر اثر مرتب کررہے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان فی الحال مخدوش صورتحال میں سرفہرست ہے اور چین کا عروج مسلسل جاری ہے۔