بی جے پی کی دوست جماعت مسلمانوں کی دوست کیسے ؟

   

مسلم جماعتوں اور تنظیموں کیلئے لمحہ فکر، سیکولر طاقتوں کا استحکام وقت کی اہم ضرورت: مولانا طارق قادری
حیدرآباد ۔ 27۔ مارچ (سیاست نیوز) بی جے پی کی دوست جماعت سے مسلم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی دوستی کس طرح ہوسکتی ہے۔ حیدرآباد کی سیاسی جماعت اور اس کی گودی تنظیم نے جس طرح لوک سبھا انتخابات میں ٹی آر ایس کی تائید کا اعلان کیا ، مسلمان اس فیصلہ سے ناراض ہیں۔ جنرل سکریٹری صوفی اکیڈیمی مولانا طارق قادری ایڈوکیٹ نے مرکزی وزیر پیوش گوئل کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی وزیر نے ٹی آر ایس کو اپنی دوست پارٹی قرار دیا۔ لہذا اب ٹی آر ایس کی تائید کرنے والی جماعتوں اور تنظیموں کو چاہئے کہ وہ وضاحت کریں کہ ٹی آر ایس سے ان کی دوستی کی بنیاد کیا ہے ۔ بی جے پی کی دوست جماعت کسی مسلم تنظیم کی کس طرح دوست ہوسکتی ہے۔ مولانا طارق قادری نے کہا کہ گزشتہ 70 برسوں میں ملک میں مسلم قیادتوں کے نام پر مسلمانوں کی ترقی اور بہبود کو نظر انداز کیا گیا اور اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کی گئی ۔ اس طویل مدت میں مسلمانوں کی ترقی کا کوئی جامع منصوبہ تیار نہیں ہوا۔ مسلم جماعتوں اور تنظیموں کو کشتی بدلنے کی عادت سی ہوگئی ہے، چاہے اس کا ملاح کوئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ مسلم جماعتوں اور تنظیموں کی موجودہ روش مسلمانوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے نام پر قیادت کی دولت میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ مسلمانوں کی پسماندگی بڑھتی جارہی ہے۔ غریب مسلمانوں کے امیر قائدین کا اندازہ انتخابی حلفناموں سے ہوتا ہے ۔ مولانا طارق قادری نے کہا کہ ہر دور میں مسلمانوں کی نمائندگی کے نام پر سودے بازی کی گئی۔ آر ایس ایس اور بی جے پی تو مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں لیکن ملت کے یہ نام نہاد قائدین ہمدردی کے نام پر اپنے مفادات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ ایسے وقت جبکہ ملک میں لوک سبھا انتخابات میں راست مقابلہ فرقہ پرست اور سیکولر طاقتوں کے درمیان ہے، مسلم جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیکولر طاقتوں کو مستحکم کریں۔ یونائٹیڈ مسلم فورم کی جانب سے ٹی آر ایس کی تائید کے اعلان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا طارق قادری نے کہا کہ فورم میں کبھی بھی ملت کے مفادات کو ترجیح نہیں دی ۔ اور اپنے شخصی مفادات کو پیش نظر رکھا۔ انہوں نے کہا کہ فورم کے ذمہ دار فیرا اور دیگر مقدمات میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ لہذا حکومت کی سرپرستی حاصل کرتے ہوئے مقدمات سے بچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی اور دیگر تنظیموں کو بھی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ پیوش گوئل کا بیان مسلم جماعتوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یونائٹیڈ مسلم فورم نے ایک بار بھی چیف منسٹر سے ملی مسائل پر بات چیت نہیں کی ۔ چیف منسٹر نے فورم کو ملاقات کا موقع تک نہیں دیا ۔ اس کے باوجود اپنے مفادات کیلئے تائید کا اعلان کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ بدبختی کی بات ہے کہ شریعت کے معاملہ میں ٹی آر ایس نے بی جے پی کی تائید کی ۔ پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ بل پر ٹی آر ایس نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اب حیدرآباد کا نام بدل کر بھاگیہ نگر کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی تنظیموں کو برسر اقتدار پارٹی کی الیکشن مہم کا حصہ بننے کے بجائے سیکولر طاقتوں کے حق میں ووٹ کی اپیل کرنی چاہئے ۔ اگر فرقہ پرست طاقتوں کو استحکام حاصل ہوا تو وہ جمہوریت اور دستور کو ختم کرنا چاہیں گے۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس نے اپنی پہلی میعاد میں ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا کہ جس کی بنیاد پر لوک سبھا انتخابات میں تائید کی جاسکے۔ اقلیتی بہبود کے لئے جو بجٹ مختص کیا گیا ، وہ جاری نہیں ہوا۔ اقلیتوں کے بارے میں حکومت کے محض زبانی ہمدردیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس نے پانچ برسوں میں ہر اہم فیصلہ میں مرکز میں بی جے پی کی تائید کی ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرکزی وزیر نے حیدرآباد میں ٹی آر ایس کو بی جے پی کی دوست قرار دیا لیکن آج تک ٹی آر ایس نے اس کی تردید نہیں کی ۔