بی جے پی کے جارحانہ تیور

   

ملک کی چند ریاستوں میں جاریہ سال اور پھر آئندہ سال کے وسط تک ملک میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتخابات کے پیش نظر ہر جماعت اپنے اپنے طورپر تیاریاں کرنے میں لگی ہوئی تھی کہ اچانک ہی بی جے پی نے جارحانہ تیور اختیار کرتے ہوئے اپوزیشن کو کمزور کرنے اور انہیںخوفزدہ کرنے کی مہم میں تیزی پیدا کردی ہے ۔ ملک کے طول و عرض میں مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کی رسائی ہونے لگی ہے ۔ ہر اس جماعت کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جس سے بی جے پی کے امکانات پر مقامی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ چاہے وہ بی آر ایس ہو کہ عام آدمی پارٹی ہو ‘ چاہے وہ راشٹریہ جنتادل ہو یا پھر سماجوادی پارٹی ہو ‘ چاہے وہ ترنمول کانگریس ہو پھر قومی سطح پر کانگریس ہی کیوں نہ ہو ۔ ہر جماعت کے خلاف بی جے پی کی جانب سے جارحانہ تیور اختیار کرلئے گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی کو انتخابی امکانات پر شبہات ہیں۔ وہاں بی جے پی کوشش کے باوجود شائد اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے گی ۔ کانگریس کیلئے کرناٹک میں حالات مستحکم ہونے کے اشارے ملے ہیں۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس پارٹی کیلئے امکانات بہتر دکھائی دینے کے دعوی کئے جا رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کے اقتدار کو بی جے پی نے انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ہتھیا لیا ہے ۔ جیوتر آدتیہ سندھیا نے یہاںکانگریس سے انحراف کرتے ہوئے بی جے پی حکومت کی راہ ہموار کی تھی اور وہ خود مرکزی وزیر بن بیٹھے ہیں۔ اسی طرح راجستھان میں اشوک گہلوٹ حکومت بھی اپنے اقتدار کو بچانے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ بی جے پی کو راجستھان میں بھی داخلی اختلافات کا سامنا ہے ۔ ایسے میں کانگریس کو نشانہ بنانا بی جے پی کیلئے ضروری ہوگیا تھا اور شائد یہی وجہ رہی کہ حالات کو تیزی سے گھماتے ہوئے راہول گاندھی کے خلاف عدالتی فیصلہ بھی ہوگیا اور انہیں اس مقدمہ میں اعظم ترین دو سال کی سزا بھی سنادی گئی اور پھر ان کی لوک سبھا کی رکنیت کو بھی برخواست کردیا گیا ۔ بی جے پی نے یہ سب کچھ سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا ہے ۔
حالانکہ یہ سب کچھ انہیں خوفزدہ کرنے کی نیت سے کیا گیا لیکن راہول گاندھی اس سارے معاملے میں خوفزدہ ہونے کی بجائے پرجوش نظر آ رہے ہیں۔ جس طرح سے راہول گاندھی کے خلاف کارروائی پر اپوزیشن جماعتوں نے رد عمل کا اظہار کیا ہے وہ بی جے پی کیلئے لمحہ فکر ہوسکتا ہے ۔ اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کے جذبہ کا فقدان تھا ۔ اپوزیشن کی جانب سے راہول گاندھی کے معاملہ میں حکومت پر تنقید سے ایک امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ جماعتیں متحد ہوسکتی ہیں۔ حالانکہ یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن سارے مسئلہ میں بی جے پی کے تیور پر غور کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی کسی بھی قیمت پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے جذبہ کے ساتھ یہ کارروائیاں کر رہی ہے ۔ جس طرح کہا جا رہا ہے کہ ملک کی شمالی ریاستوں میں بی جے پی کے کچھ نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی کو اترپردیش میں اتنی کامیابی ملنی دشوار ہے جتنی گذشتہ انتخابات میں ملی تھی ۔ اسی طرح راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی کیلئے اپنی تمام نشستیں برقرار رکھنا آسان نہیںہوگا ۔ وہاں بھی اسے کچھ نشستوں سے محروم ہونا پڑسکتا ہے ۔ مغربی بنگال میں بی جے پی اپنی کامیابی کے سلسلہ کو شائد برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوگی ۔ مہاراشٹرا میں بھی اسے چند نشستوں کا نقصان ہوسکتا ہے ۔ اس صورتحال میں بی جے پی نے اپنے نقصان کو اپوزیشن کو خوفزدہ کرتے ہوئے پورا کرنے کی کوشش شروع کردی ہے تاہم یہ کوششیں شائد ہی کامیاب ہوپائیں۔
شمالی ہند کے سیاسی اور انتخابی نقصان کو دوسری ریاستوں سے پورا کرنے کی کوشش میں بی جے پی زیر قیادت حکومت اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہے ۔ سارے ملک میں ایک خوف و ہراسانی کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے ۔ اپوزیشن کیلئے عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ کانگریس مکت بھارت کانعرہ دیتے ہوئے ملک کو اپوزیشن مکت بنانے کی سمت پیشرفت کی جا رہی ہے ۔ پارٹی کے یہ تیور ملک اور ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے اچھی علامت نہیں کہے جاسکتے ۔ جمہوریت میں عوام ہی اصل طاقت ہوتے ہیں لیکن حکومت خود کو ا صل طاقت کے طور پر منوانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ملک میں جمہوریت پسند عوام کو ساری صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔