اُڑا جاتا ہے قابل ذرہ ذرہ
زمین بھی آسمان ہوجائے گی کیا
بی جے پی کے دوہرے معیارات
ویسے تو بی جے پی اور مرکزی حکومت کے وزراء تقریبا ہر معاملہ میں دوہرے معیارات اختیار کرتے ہیں۔ خود وزیر اعظم بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ کئی ایسے اہم امور ہیں جن کے تعلق سے وزیر اعظم نریندر مودی کی رائے اس وقت الگ تھی جب وہ گجرات کے چیف منسٹر تھے اور اب وہ اپنے سابقہ موقف کے برخلاف ہی فیصلے کرتے ہوئے ان فیصلوںکو ملک کے حق میں بہتر قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح بی جے پی اور اس کے قائدین کئی معاملات میں دوہرے معیارات اختیار کرتے جا رہے ہیں او ر اس سے عوام میں ان کی ساکھ متاثر ہوتی جا رہی ہے ۔ گذشتہ دن جب ایک ٹی وی اینکر کو خود کشی کیلئے مجبور کرنے کے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کہ بی جے پی کی اپنی صفوں میں ہلچل مچ گئی ہے اور اسک ے کسی اہم اور ذمہ دار قائد کو ہی گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا ہے ۔ جب مہاراشٹرا کی پولیس نے اس ٹی وی اینکر کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو اینکر نے کسی ضدی بچے کی طرح پولیس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا ۔ ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر ہر ایک کو درس دینے کی کوشش کرنے والا یہ اینکر خود قانون کی خلاف ورزی جیسی حرکتیں کر رہا تھا ۔ وہ پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے پولیس کو ہی سبق دینے کی کوشش کر رہا تھا ۔ تاہم جب پولیس نے اپنا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اسے گرفتار کرلیا تو اس کیلئے سارے بی جے پی قائدین کو فکر لاحق ہونے لگی ۔ تمام وزراء اور سینئر قائدین ین بھی ٹوئیٹ کرنا اپنا فرض اولین سمجھا اور اسے ایمرجنسی کی یاد قرار دیتے ہوئے اسے اظہار خیال کی آزادی کے مغائر فیصلہ قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ حالانکہ پولیس نے حسب قانون کارروائی کی ہے ایک مقدمہ میں تمام قانونی پہلووں کی تکمیل کے بعد اس اینکر کو گرفتار کیا ہے ۔ بی جے پی کے قائدین اور مرکزی وزراء اسے آزادی اظہار خیال اور آزادی صحافت پر حملہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ یہی وہ وزراء اور قائدین ہیں جنہوں نے خود اس ملک میں آزادی اظہار خیال اور آزادی صحافت کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
سارا ملک جانتا ہے کہ جب دستور کے دفعہ 370 کو حذف کیا گیا تو سارے کشمیر میں اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو بند کردیا گیا ۔ اس وقت کسی کو آزادی صحافت کی یاد نہیں آئی ۔ سارا ملک جانتا ہے کہ جب اترپردیش میں مڈ ڈے میل اسکیم کے نام پر معصوم بچوں کو روٹی اور نمک دئے جانے کا ایک مقامی صحافی نے انکشاف کیا تو اس کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے جیل بھیج دیا گیا ۔ سارا ملک جانتا ہے کہ ملک کے معروف اور معزز صحافی ونود دوا کو کس طرح سے مقدمات درج کرتے ہوئے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی اور حقیقی صحافت کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی ۔ سارے ملک نے دیکھا کہ کس طرح ایک اور معتبر صحافی پرونو رائے کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں مقدمہ میں پھانسنے کی کوشش کی گئی ۔ ملک اس بات سے بھی واقف ہے کہ ملک کے ایک اور مقبول صحافی رویش کمار کو کس طرح سے دھمکیاں دی گئیں اور انہیں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ اس وقت نہ کسی زر خرید میڈیا یا ٹی وی اینکر نے آواز اٹھانا ضروری سمجھا اور نہ ہی مرکزی وزراء یا بی جے پی قائدین کو آزادی صحافت کا خیال آیا ۔ جب ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر سارے ملک کا ماحول پراگندہ کرنے کی کوشش کرنے والے ایک اینکر کو دو افراد کو خود کشی پر مجبور کرنے کے مقدمہ میںگرفتار کیا جاتا ہے توان مرکزی وزراء اور بی جے پی قائدین میں بے چینی پیدا ہوجاتی ہے اور ایک طرح سے وہ تلملا جاتے ہیں اور اس پر تبصرے شروع کردیتے ہیں۔
آج اظہار خیال کی دہائی دینے والی ان وزراء اور قائدین کو ملک کے ان کئی جہد کاروں کا خیال نہیں ہے جنہیں محض اپنے خیالات کے اظہار پر غداری کے مقدمات میں ماخوذ کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔ کسی بھی مرکزی وزراء یا بی جے پی لیڈر نے اس وقت کوئی بیان دینا ضر وری نہیں سمجھا جب بنگلورو کی ایک بے باک و نڈر صحافی گوری لنکیش کو اس کے گھر کے عین باہر گولی ماردی گئی ۔ بی جے پی ہر معاملے کو اپنی سہولت سے دیکھنے کی عادی ہے ۔ یہ وہی ٹی وی اینکر ہیں جو بی جے پی کے ایجنڈہ کو ٹی وی اسکرین کے ذریعہ عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی لئے بی جے پی ان کیلئے بے چین ہو اٹھی ہے ۔ تاہم اس مسئلہ میں سارے ملک نے دیکھ اور محسوس کرلیا ہے کہ کس طرح سے بی جے پی دوہرے معیارات اختیار کرتی ہے ۔
