ملک کی تین ریاستوں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی نے قدرے تاخیر کرتے ہوئے تینوں ہی ریاستوں کے لئے نئے چیف منسٹرس کا اعلان کردیا ہے ۔ تینوں ہی ریاستوں میں بی جے پی کو بہترین کامیابی حاصل ہوئی تھی اور پارٹی نے ان نتائج کو آئندہ 2024کے پارلیمانی انتخابات کی تیاریوں کے طور پر استعمال کرنا شروع بھی کردیا ہے ۔ پارٹی نے تینوں ہی ریاستوں کیلئے چیف منسٹر کے عہدہ پر نئے چہروں کو متعارف کروایا ہے ۔ حالانکہ انتخابی عمل کے آغاز ہی سے کہا جا رہا تھا کہ انتخابی کامیابی کے بعد ان ریاستوں میںچیف منسٹرس کو تبدیل کیا جائیگا اور نئے چہروں کو متعارف کرواتے ہوئے چیف منسٹر کی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی ۔ تاہم مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں جن نئے چہروں کو متعارف کروایا گیا ہے وہ سبھی کیلئے حیرت کا باعث ہے ۔ مدھیہ پردیش میں مسٹر موہن یادو کو ذمہ داری دی گئی ہے جو کبھی بھی چیف منسٹر کی دوڑ میں شامل نہیں تھے ۔ وہ تیسری بار کے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے ۔ وہاں کئی مرکزی وزراء نے انتخابات میں مقابلہ کیا تھا ۔ کئی ارکان پارلیمنٹ نے بھی کامیابی حاصل کی تھی اور یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ ان ہی میں سے کسی کو وزارت اعلی کی کرسی دی جائے گی ۔ تاہم بی جے پی نے تمام قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے بالکل غیر متوقع طور پر مسٹر موہن یادو کو ذمہ داری سونپی ہے اور انہیں ریاست کا نیا چیف منسٹر نامزد کردیا ہے ۔ اسی طرح چھتیس گڑھ کی بات کی جائے تو وہاں مسٹر وشنو دیو سائی کو چیف منسٹر مقرر کیا گیا ہے ۔ مسٹر سائی پردیش بی جے پی کے صدر تھے ۔ وہ مرکزی وزیر بھی رہ چکے تھے اور بی جے پی قومی ورکنگ کمیٹی کے رکن بھی رہے تھے ۔ اس کے باوجود وہ کہیں بھی چیف منسٹر کے عہدہ کی دوڑ میں شامل نہیں تھے ۔ ان کا قبائلی برادری سے تعلق ہے ۔ مسٹر موہن یادو کا مدھیہ پردیش میں او بی سی زمرہ سے تعلق ہے اور بی جے پی آئندہ پارلیمانی انتخابات میں سماجی اور طبقات کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا نظر آتی ہے ۔ ان تقررات سے یہی تاثر ملتا ہے ۔
اب راجستھان میں تمام تر قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے پارٹی نے پہلی مرتبہ کے رکن اسمبلی کو ہی چیف منسٹر کی کرسی پر فائز کردیا ہے ۔ مسٹر بھجن لال شرما کا تعلق بھرت پور ضلع سے ہے تاہم انہیں وہاں سے موقع نہیں دیا گیا بلکہ انہیں سنگانیر حلقہ سے امیدوار بنایا گیا تھا جہاں سے انہوں نے کامیابی حاصل کی تھی اور اب انہیں ریاست کا چیف منسٹر مقرر کردیا گیا ہے ۔ بھرت پور حلقہ سے اعلی ذات کے افراد کی کامیابی کے امکانات کم رہتے ہیں ایسے میں مسٹر شرما کو سنگانیر سے مقابلہ کروایا گیا تھا ۔ مدھیہ پردیش کی طرح راجستھان میں بھی کچھ مرکزی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ نے انتخابات میں مقابلہ کیا تھا اور کچھ دبے دبے الفاظ میں یہ دعوی بھی کر رہے تھے کہ وہ وزارت اعلی کے دعویدار ہیں۔ مرکز سے طلب کرتے ہوئے ریاست میں مقابلہ کروانے پر عوامی حلقوں میں بھی یہی تاثر تھا کہ کسی مرکزی لیڈر کو ہی ریاست میں ذمہ داری سونپی جائے گی ۔ تاہم بی جے پی کی اعلی قیادت اور مرکزی قائدین نے تمام تر قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے پہلی مرتبہ کے رکن اسمبلی بھجن لال شرما کو چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز کردیا ہے ۔ یہ بی جے پی کی مستقبل کی سیاسی حکمت عملی کا اندازہ ہے کہ سماج کے تمام طبقات کو پارٹی سے قریب کرتے ہوئے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی جاسکے ۔ بی جے پی کیلئے 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اس کے ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے بہت اہم ہے ۔
چھتیس گڑھ اور راجستھان میں قبائلی اور او بی سی طبقات کی آبادی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے ان طبقات سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو وزارت اعلی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جبکہ راجستھان میں سماجی تقسیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعلی ذات والے لیڈر کو چیف منسٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو ان تقررات سے فائدہ کی امید ہے ۔ حالانکہ راجستھان اور مدھیہ پر دیش میں پارلیمانی نشستوں پر بی جے پی ہی کا قبضہ ہے تاہم پارٹی آئندہ انتخابات میں کسی نقصان سے بچنے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے اور اسی مناسب سے تینوں ریاستوں میں نئے چہروں کو وزرات اعلی پر فائز کیا گیا ہے ۔