بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں!

   

Ferty9 Clinic

محمد مصطفی علی سروری

سائبرکرائم کے حوالے سے اخبار ٹائمز آف انڈیا کے حیدرآباد ایڈیشن نے 26؍ ستمبر کو ایک خبر شائع کی۔ خبر کی سرخی میں بتلایا گیا کہ اسکول والوں کو بلیک میل کرنے کے الزام میں ایک خاتون گرفتار۔ تفصیلات کے مطابق نیہا فاطمہ (21) برس بی کام گریجویٹ ہے اور آئی ٹی فیلڈ میں مہارت رکھتی ہے۔ پولیس کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق یہ خاتون اسکول کے پرنسپلس سے رابطہ کرتے ہوئے بتلاتی ہے کہ وہ آئی ٹی کی مہارت رکھتی ہے اور سوشیل میڈیا پر بنی جھوٹی آئی ڈیز کو ڈھونڈ کر انہیں مٹانے کا کام کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے اسکول سے جڑے لوگوں کی ایسی آئی ڈیز کے بارے میں پتہ ہے جس میں ان کی قابل اعتراض تصاویر ہے۔ ایسے ہی ایک اسکول کے پرنسپل نے نیہا فاطمہ کے بارے میں پولیس سے شکایت کی۔
ایڈیشنل ڈی سی پی سائبر کرائم کے سی ایس رگھو کے حوالے سے اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پولیس کو نیہا کے پاس سے 225 اسکول پرنسپال کے فون نمبر دستیاب ہوئے۔ یہ لڑکی اسکولس کے پرنسپل اور دیگر لوگوں کو کیسے اپنا نشانہ بناتی ہے اس کے متعلق رپورٹ میں بتلایا گیا کہ پہلے تو یہ لڑکی اسکولس کے سوشل میڈیا اکائونٹ سے لوگوں کی تصاویر حاصل کرتی ہے اور ان تصاویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے ان کو قابل اعتراض تصاویر میں تبدیل کر کے ان کے ساتھ جعلی آئی ڈی خود ہی تیار کرتی ہے اور اس کے بعد اسکول کے پرنسپال سے خود ہی ربط پیدا کرتے ہوئے اپنے آپ کو سائرہ جوزف آئی ٹی ایکسپرٹ کے طور پر تعارف کرواتے ہوئے اسکول والوں کو ان کے اسٹاف اور اسٹوڈنٹس کی جعلی قابل اعتراض تصاویر کی آئی ڈیز کے بارے میں مطلع کرتی ہے اور اپنی خدمات کا تعارف کرواتے ہوئے پیشکش کرتی ہے کہ اگر اس کو ’’فیس‘‘ ادا کی جائے تو وہ ایسی قابل اعتراض فوٹوز کی آئی ڈیز کو Delete کرنے کا کام کرسکتی ہے۔ ایک اسکول کے پرنسپل کی شکایت پر سائبر کرائم کی پولیس نے نیہا فاطمہ کو 25؍ ستمبر 2019 کو شہر حیدرآباد میں گرفتار کرلیا۔
قارئین مثالیں حالات کی ہوں یا واقعات کی۔ چیزوں کو سمجھانے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے دی جاتی ہیں اور ان واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے نوجوان نسل کو تعلیم اور محنت کر کے اکل حلال کمانے کی جانب راغب کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اولیائے طلبہ، والدین اور سرپرستوں کو نوجوانوں کی تربیت جیسے اہم فریضہ کی جانب توجہ مبذول کروانا مقصود ہوتا ہے۔
والدین جب اپنی ہی اولاد کی محبت میں اندھے ہوکر ان کی تربیت سے غفلت برتنے لگتے ہیں تو کیا نتیجہ نکلتا ہے اخبار نیو انڈین ایکسپریس میں 30؍ ستمبر 2019ء کو شائع ہوئی اس خبر کا مطالعہ ضرور کیجیے گا جس کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ ایم بی بی ایس کے داخلوں میں دھاندلیوں کا پتہ چلنے کے بعد حکومت تاملناڈو نے سی بی سی آئی ڈی کے ذریعہ تحقیقات کروانے کا اعلان کیا۔ اخبار کی اطلاعات کے مطابق اتوار 29؍ ستمبر کو تاملناڈو پولیس نے ڈاکٹر محمد شفیع کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔ پولیس کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ ڈاکٹر شفیع خود تاملناڈو میں دو دواخانے چلاتے ہیں اور وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا عرفان بھی ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کرے۔ کیونکہ عرفان کے سبھی بھائی بہن ایم بی بی ایس کر رہے ہیں۔ اس لیے ڈاکٹر شفیع نے عرفان کے ایم بی بی ایس میں داخلہ کو یقینی بنانے کے لیے ایک ایجنٹ کی خدمات حاصل کیں۔ پیسے لے کر اس ایجنٹ نے عرفان کے بجائے کسی دوسریطالب علم کے ذریعہ NEET کا امتحان پاس کروایا اور اچھا رینک آنے پر عرفان کو تاملناڈو کے گورنمنٹ دھرما پور میڈیکل کالج میں داخلہ بھی مل گیا۔ سب کچھ منصوبہ کے مطابق ہوا لیکن اخبار دی ہندو میں شائع 29؍ ستمبر 2019ء کی رپورٹ کے بموجب چینائی کے ایک گورنمنٹ میڈیکل کالج میں داخلہ بھی مل گیا۔ سب کچھ منصوبہ کے مطابق ہوا لیکن اخبار دی ہندو میں شائع 29؍ ستمبر 2019 ء کی رپورٹ کے مطابق چینائی کے ایک گورنمنٹ میڈیکل کالج کے ڈین کو نامعلوم افراد کی جانب سے ایک ای میل ملتا ہے جس میں دھوکہ دہی کی ساری تفصیلات بتلائی گئی کہ NEET کے انٹرنس امتحان میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ایجنٹس 20 لاکھ روپئے لے کر اسی طالب علم کے نام، ولدیت اور مکمل پتہ کے ساتھ تاملناڈو کے باہر مہاراشٹرا اور اتر پردیش کے سنٹرس پر دوسرے ماہرین سے انٹرنس لکھواکر کامیابی دلوائی۔ ای میل میں سوریہ نام کے ایک ایسے طالب علم کا ذکر تھا جس نے ابھی ایم بی بی ایس میں داخلہ لیا تھا۔ پولیس میں شکایت درج کروانے کے بعد سوریہ اور اس کے والد کو پکڑ لیا گیا اور تاملناڈو حکومت نے اس برس ایم بی بی ایس میں داخلہ لینے والے سبھی طلبہ کے سرٹیفکیٹس کی دوبارہ جانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج دھرماپور کے مینجمنٹ نے بھی ایم بی بی ایس فرسٹ ایئر کے سبھی طلبہ کے داخلوں کو چیک کرنے کا اعلان کیا اور سبھی طلبہ کو جانچ کے لیے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ لیکن جانچ کا حکم ملتے ہی ایک طالب علم نے اپنڈکس کا آپریشن ہے کہہ کر میڈیکل کالج سے چھٹی کی درخواست دی اور ہاسپٹل چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کے گھر پر نوٹس بھیجی گئی لیکن کوئی جواب نہیں ملا اور پھر عرفان نامی اس طالب علم کے والد ڈاکٹر شفیع کو پولیس نے اپنی تحویل میں لیا تو ساری تفصیلات کا پتہ چلا اور یہ بھی پتہ چلا کہ عرفان کسی اپنڈکس کے آپریشن کے سبب نہیں بلکہ پولیس کے چکر سے بچنے کے لیے انڈیا چھوڑ کر ماریشس چلا گیا ہے۔
اخباری اطلاعات میں بتلایا گیا کہ ایم بی بی ایس فرسٹ ایئر میں داخلہ لینے والے سبھی طلبہ کے حوالے سے باضابطہ جانچ کی جارہی ہے۔ قارئین! اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ والدین کی دولت بھی بچوں کا کیریئر نہیں بناسکتی ۔ ہاں ،اگر والدین اپنے بچوں کو محنت کرنا اور اچھا پڑھنا سکھادیں تو ان کی تعلیم ضرور ان کے کام آسکتی ہے۔ گھر میں والد کا ڈاکٹر ہونا اور بھائی بہنوں کا ایم بی بی ایس پڑھنا بھی جب گھر کے چھوٹے بچے کو ڈاکٹری کی تعلیم میں داخلہ کے لیے محنت کرنے پر آمادہ نہیں کر رہا ہے تو والدین کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے۔ یہ کیسی محبت ہے کہ والدین اپنے بچوں کو محنت کرنے کے لیے تیار نہیں کر پا رہے ہیں اور اپنے بینک بیالنس کے ذریعہ ان کی کامیابی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔
پڑھنے والوں اور محنت کرنے والوں کے لیے آج بھی ملازمت کے مواقع موجود ہیں۔ کیا مسلم نوجوان اس جانب توجہ کر رہے ہیں۔ 22؍ جنوری 2018ء صبح آٹھ بجنے میں ابھی وقت باقی ہے۔ حیدرآباد سے تقریباً 108 کیلو میٹر ضلع نلگنڈہ کی ڈسٹرکٹ سنٹرل لائبریری کے باہر کا منظر ہے۔ لائبریری صبح 8 بجے کھلنے والی ہے۔ لیکن وقت سے پہلے ہی نوجوانوں کی طویل قطار لگی ہوئی ہے جو اس بات کے منتظر ہیں کہ کب لائبریری کا دروازہ کھلے گا اور وہ لوگ کب اندر داخل ہوکر اپنے لیے جگہ حاصل کرپائیں گے۔ نلگنڈہ کی اس لائبریری کے ذمہ دار جناب ناگیا کے مطابق ستمبر 2019ء میں جب پولیس کانسٹبل کے انتخاب کے لیے ہوئے امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا گیا تو نلگنڈہ لائبریری سے استفادہ کرنے والے 17 نوجوانوں کو کانسٹبل کے عہدہ کے لیے (مختلف زمروں میں) کامیاب قرار دیا گیا۔
محنت کر کے نہ صرف نوکری حاصل کی جاسکتی ہے بلکہ کام کرنے کے بعد پیسوں کی بھی بچت ممکن ہے۔
قارئین 23؍ ستمبر 2019ء کو پنجاب اینڈ مہاراشٹرا کو آپریٹو بینک (پی ایم سی بینک) کی جانب سے بینک سے پیسے نکالنے پر تحدیدات عائد کی گئی۔ اس اچانک پابندی سے کئی لوگ پریشان ہوگئے اور بینک کے باہر پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے۔ ایسی ہی ایک پریشان حال خاتون سے ’’آج تک‘‘ چیانل کے نمائندے نے بات کی تو خاتون نے بتلایا کہ اس کے اکائونٹ میں 70 ہزار روپئے جمع ہیں اور آج جب وہ اپنی لڑکی کی اسکول فیس جمع کرنے کے لیے رقم نکالنا چاہتی ہے تو بینک والے اس کو صرف ایک ہزار کی رقم ہی دے رہے ہیں۔ چیانل کے رپورٹر نے جب خاتون سے سوال کیا کہ آپ کیا کرتی ہیں تو روتے ہوئے خاتون نے بتلایا کہ میں لوگوں کے گھروں میں بطور خادمہ کام کرتی ہوں اور ایسے ہی کام کر کے میں نے 70 ہزار کی رقم جمع کی۔ یہ تو ایک غیر مسلم خاتون تھیں جو لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ ایسی بے شمار مسلم خواتین ہیں جو بطور خادمہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں اور آپ جب ان سے بچت کے بارے میں بینک بیالنس کے بارے میں بات کریں گے تو پتہ چلے گا کہ ان کے پاس بچت تو نہیں ہے۔ ہاں ان پر قرضوں کا بوجھ ضرور ہے اور یہ قرضے کس نوعیت کے ہیں وہ بھی جان لیجیے، بچی کی شادی کا قرضہ، چھلے کے لیے قرضہ، بیماری کے وقت لیا گیا قرضہ، دعوت کے لیے لیا گیا قرضہ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کے حال پر رحم فرئے اور مسلم نوجوانوں کے لیے رزق حلال کے دروازے کھول دے۔ نفع والا علم عطا فرما۔ نیکوں کی صحبت دے اور برائی کے ہر کام سے ہم سب کی حفاظت فرما۔ صراط مستقیم پر چلنا ہم سب کے لیے آسان فرما۔ (آمین)بقول شاعر
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]