تاریخی مکہ مسجد اور شاہی مسجد کے باب الداخلے مقفل ، مصلیوں کو داخلے کی عدم اجازت

,

   

Ferty9 Clinic

پولیس کی بھاری جمعیت تعینات ، مصلی واپس جانے پر مجبور ، محکمہ اقلیتی بہبود کے رویہ پر شدید برہمی
حیدرآباد۔12جون(سیاست نیوز) نماز جمعہ کیلئے تاریخی مکہ مسجد اور شاہی مسجد باغ عامہ میں مصلیوں کو آنے سے روکنے کیلئے پولیس کی بھاری جمعیت کو تعینات کیا گیا تھا ۔ محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے مرکزی و ریاستی حکومت کے مساجد و مذہبی مقامات کی کشادگی کے باوجود ان مساجد کو نہ کھولنے پر کئی سوال اٹھائے جانے لگے ہیں لیکن مسجد انتظامیہ اور محکمہ کی جانب سے استدلال پیش کیا جا رہاہے کہ بڑی تعداد میں مصلیوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے یہ اقدامات کئے گئے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ رہنمایانہ خطوط پر عمل آوری کے ساتھ مذہبی مقامات کی کشادگی عمل میں لائی جانی چاہئے ۔ مکہ مسجد اور شاہی مسجد میں مصلیوں کی آمد کو روکنے کیلئے پولیس کی جانب سے کئے گئے انتظامات پر مصلیوں نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کا محکمہ اقلیتی بہبوداور اس محکمہ میں خدمات انجام دینے والے عہدیدار خود کو ریاستی و مرکزی حکومت سے بالاتر تصور کر رہے ہیں اور عوام کو اب اس بات کا اندازہ ہونے لگا ہے کہ وہ کس کے اشارہ پر کام کرتے ہوئے رہنمایانہ خطوط پر عمل آوری کے ساتھ نماز کی ادائیگی سے روک رہے ہیں۔ مکہ مسجد کی سمت جانے والی ٹریفک کو شاہ علی بنڈہ سے ہی رخ موڑتے ہوئے نماز سے قبل اس سڑک پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور مسجد کے تمام باب الداخلوں کو مقفل رکھا گیا تھا۔ اسی طرح شاہی مسجد کے قریب بھی پولیس کو تعینات کرتے ہوئے مسجد کے باب الداخلوں کو مقفل رکھتے ہوئے مصلیوں کو جمعہ کی نماز کی عام اجازت نہیں دی گئی جس کے نتیجہ میں مصلیوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ مصلیوں نے محکمہ اقلیتی بہبودپر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ اقلیتی بہبود کے زیر انتظام ان مساجد میں صفائی کے انتظامات کو بہتر بنانے کے علاوہ حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے رہنمایانہ خطوط پر عمل آوری کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے ذریعہ مثال قائم کرنے کے بجائے مساجد کو مقفل رکھتے ہوئے اپنی نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔ حکومت کے اعلی عہدیدارو ں سے عوام نے مطالبہ کیا کہ شہر میں موجود محکمہ اقلیتی بہبود کے تحت صرف دو مساجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے قاصر عہدیدارو ںکے خلاف کاروائی کی جائے ۔ اس کے علاوہ عوام نے حکومت سے استفسار کیا کہ جب محکمہ اقلیتی بہبود کے تحت موجود ان مساجد میں رہنمایانہ خطوط کے ساتھ نماز کی ادائیگی کی گنجائش نہیں ہے تو دیگر مساجد کی انتظامی کمیٹیوں سے حکومت کس طرح یہ توقع کرسکتی ہے!