گزشتہ سے پیوستہ … ذنب کا معنی عام طور پر گناہ کیا جاتا ہے۔ گناہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی کو، لیکن اہل لغات لفظ ذنب کو الزام کے معنی میں بھی استعمال کرتے رہتے ہیں اور الزام میں یہ ضروری نہیں کہ وہ فعل اس شخص سے صادر بھی ہوا ہو، بلکہ بسا اوقات بلاوجہ اس فعل کی نسبت اس شخص کی طرف کر دی جاتی ہے۔ اسی مادہ کے دو اور لفظ ہیں ذنب اور ذنوب۔ ذنب کا معنی دم ہے جو جانور کے جسم کے آخر میں چمٹی ہوتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کے جسم کا حصہ نہیں، بلکہ باہر سے اس کے ساتھ چمٹا دی گئی ہے۔ اور پانی نکالنے والے ڈول کو ذنوب کہتے ہیں جو رسی کے ایک سرے سے بندھا رہتا ہے۔ اسی مناسبت سے ذنب کا اطلاق الزام پر بھی ہو سکتا ہے جو کسی شخص کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے، خواہ اس نے اس کا ارتکاب نہ کیا ہو۔قرآن کریم میں بھی ذنب کا لفظ الزام کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک روز موسیٰ علیہ السلام نے ایک اسرائیلی اور ایک قطبی کو باہم لڑتے دیکھا۔ قطبی اسرائیلی کو زدوکوب کر رہا تھا۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو انہیں مدد کے لیے پکارا۔ آپ نے پہلے قطبی کو منع کیا کہ غریب اسرائیلی پر ظلم و زیادتی نہ کرے۔ جب وہ باز نہ آیا تو آپ نے اسے ایک مکا دے مارا جو اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ اپنے زیر دست ساتھی کی مدد کرنا، اس کے بچاؤ اور اپنے دفاع کے لیے حملہ آور کو مکا مارنا شرعا کوئی جرم ہے نہ عرف میں یہ فعل قبیح ہے، لیکن فرعون چونکہ آپ کا دشمن تھا اور انہیں حکومت کا باغی تصور کرتا تھا، اس نے آپ پر قتل کا الزام رکھا تھا اور اگر اس کا بس چلتا تو وہ آپ کو وہی سزا دیتا جو قتل عمد کی ہے۔ … جاری ہے