رام پنیانی
ہندوستان میں فی الوقت دائیں بازو کے سیاسی و مذہبی ونگس کی سیاست کا بول بالا ہے اور ان کی اجارہ داری میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران کئی ایک ہندوستانی ریاستوں میں آزادیٔ مذہب کے نام پر بلس متعارف کروائے ہیں۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ آزادیٔ مذہب قرار دیئے جانے والے یہ بلز دراصل مذہبی آزادی کو دبانے کے مترادف ہے۔ ان بلز کا مقصد مذہبی تبدیلی کے مبینہ واقعات کو روکنا ہے جبکہ ہمارا دستور ہمیں اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا پورا پورا حق دیتا ہے، لیکن مختلف ریاستوں کی جانب سے تبدیلی مذہب کے خلاف منظورہ بلز اقلیتی طبقات کو ہراساں کئے جانے، پریشان کئے جانے اور انہیں دھمکیاں دیئے جانے کا باعث بن رہے ہے۔ کرناٹک میں بھی اسی طرح کا بل متعارف کروایا گیا ہے جبکہ کانگریس نے کہا کہ اگر وہ ریاست میں اقتدار پر آتی ہے تو پھر بی جے پی حکومت کے متعارف کردہ انسداد تبدیلی مذہب بل کو ختم کردے گی۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں جس طرح تبدیلی مذہب کے قانون بنائے جارہے ہیں ، منظور کئے جارہے ہیں، اس کا مقصد صرف اور صرف مذہبی اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ سردست عیسائی برادری ان ریاستوں میں نشانے پر ہے اور انہیں ان قوانین کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو خاص طور پر پچھلے چار دہوں سے عیسائیوں کے خلاف ماحول بنایا جارہا ہے، یعنی چار دہے قبل عیسائیوں کے خلاف نفرت کی ایک لہر پیدا کی گئی جو راہباؤں اور عیسائی پادریوں پر حملوں کی شکل میں منظر عام پر آرہے ہیں۔ اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ راہباؤں اور عیسائی پادریوں پر حملوں کو عام عیسائیوں تک وسعت دے دی گئی ہے۔ 1990ء کے دہے میں کیتھولک راہبہ سسٹر رانی ماریہ کے قتل کا جو بہیمانہ واقعہ پیش آیا تھا، کیا اسے کوئی بھول سکتا ہے؟ اُس راہبہ کو قاتل نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ چاقو کے 50 ضربات لگائے تھے۔ جبکہ 1999ء میں عیسائی پیسٹر گراہم اسٹیورڈ اسٹینس کو ان کے دو چھوٹے چھوٹے بیٹوں کے ہمراہ زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس واقعہ نے انسانیت کو دہلا کر رکھ دیا تھا اور یہ سب کچھ کس نے کیا تھا۔ آپ سب جانتے ہیں۔ دائیں بازو کی ہندوتوا ونگ سے جڑے ایک انسان نما حیوان نے کیا تھا۔ اس سلسلے میں ڈنگس (گجرات) ، جھابوا (مدھیہ پردیش) اور کندھامل میں تشدد کے خطرناک واقعات پیش آئے۔ ان واقعات اور جرائم نے عیسائی اقلیت میں خوف کی لہر پیدا کردی۔ دائیں بازو ونگ سے جڑے لوگوں نے یہ پروپگنڈہ شروع کیا کہ عیسائی مشنریز بھولے بھالے قبائیلیوں اور دلتوں کو زبردستی ، دھوکہ سے اور لالچ دے کر مذہب تبدیل کروا رہے ہیں۔
آپ کو بتا دیں کہ 1970ء کے دہے میں سوامی اسیمانند (ڈنگس) ، آسا رام بابو کے حامیوں نے (جھابوا،مدھیہ پردیش ) کے ساتھ ساتھ سوامی لکشمانند (کندھامل ، اڈیشہ) نے اپنے آشرم ، قبائیلی علاقوں میں قائم کئے اور یہ سب کچھ وان واسی کلیان آشرم کے بیانر تلے کئے گئے جبکہ وی ایچ پی اور بجرنگ دل بھی ان کے ساتھ تھے۔ چنانچہ بجرنگ دل کا دارا سنگھ المعروف راجندر پال ( سردست وہ جیل میں ہے) جس نے پیسٹر اسٹین اور ان کے دو بچوں کا قتل کیا تھا۔ وہ بھی اسی قبیل کا ہے ۔ وان واسی کلیان آشرم جیسے اداروں کے قیام کے ذریعہ فرقہ وارانہ طاقتو ں نے دراصل اپنے سیاسی فائدے اور انتخابات میں کامیابی کیلئے آدی واسیوں کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کی۔ ان فرقہ پرست طاقتوں نے آدی واسیوں یا قبائل کو باندھے رکھنے کیلئے مختلف تنظیمیں قائم کی اور خاص طور پر شابری اور ہنومان کی مندریں قائم کی۔ اس کی مثال شابری میں ہونے والی پوجا ہے۔ ان تمام مقامات پر آر ایس ایس کے عہدیداروں کی بڑی موجودگی دیکھی جاسکتی ہے۔ فرقہ پرست تنظیمیں بار بار یہ پروپگنڈہ کررہی ہیں کہ طاقت، دھوکہ اور لالچ کے ذریعہ مذہب کی تبدیلی عمل میں لائی جارہی ہے، لیکن اس طرح کے پروپگنڈے میں کوئی دم نہیں کیونکہ عیسائیت ہندوستان کے قدیم مذاہب میں سے ایک مذہب ہے۔ ہندوستان میں اس کا ایک ورژن وہ ہے جسے سینٹ تھامس نے سب سے پہلے 52 عیسوی میں ساحل مالابار پر قائم کیا اور تب سے وہاں عیسائیت کا آغاز ہوا۔ اگر آج 2011ء کی مردم شماری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہندوستان میں عیسائیوں کی آبادی 2.3% ہے اور یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ پچھلے 50 برسوں کے دوران عیسائیوں کی آبادی میں معمولی سی کمی ہوتی ہے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق 1971ء میں عیسائی ہندوستان کی آبادی کا 2.60% حصہ تھے۔ 1981ء میں ان کی آبادی گھٹ کر 2.44% ہوگئی۔ 1991lء میں 2.34% سال 2001ء میں 2.30% اور 2011ء میں ان کی آبادی 2.30% درج کی گئی، تاہم پیسٹر اسٹینس اور ان کے دو کمسنی بچوں کے بہیمانہ قتل کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی نے تحقیقات کیلئے ودھوا کمیشن آف انکوائری قائم کی۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ کہا کہ کیونجھار منوہر (یہ دونوں اڈیشہ میں ہیں) میں عیسائیوں کی آبادی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جہاں پاسٹر اسٹینس کام کررہے تھے۔
سطور و بالا میں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے، اس کے باوجود فرقہ پرست طاقتیں اپنے پروپگنڈہ کے ذریعہ عام ہندوؤں میں یہ جھوٹ پھیلا رہی ہیں کہ عیسائی مشنریز ہندوؤں کو عیسائی بنارہے ہیں۔ یہ بھی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ تمام عیسائی مشنریز کو اس کام (تبدیلی مذہب کی انجام دہی) کیلئے بیرونی ملکوں سے پیسہ ملتا ہے جبکہ ہر کوئی یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ بیرونی ملک سے آنے والی تمام رقومات FCRA ریگولیشن یا قواعد پر عمل سے گذر کر ہندوستان میں آتی ہے اور اس میں مرکزی وزارت داخلہ کا اہم کردار ہوتا ہے۔واضح رہے کہ ابتداء میں مخا لف عیسائی تشدد صرف قبائیلی علاقوں اور دیہاتوں تک محدود رہا لیکن اب چھوٹے شہروں میں بھی پھیل گیا ہے، جہاں کانوینٹ اسکولوں کو حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حال ہی میں ہم نے مدھیہ پردیش کے گنج باوسڈا میں واقع سینٹ جوزف اسکول پر حملہ بھی دیکھا۔ جہاں تک عیسائی اداروں کے زیراہتمام چلائے جانے والے اسکولوں کی مقبولیت کا سوال ہے، اب بھی بہترین تعلیم کیلئے یہ اسکول لوگوں کے پسندیدہ اسکولس ہیں لیکن بچوں کو جن عیسائی اسکولوں سے معیاری تعلیم حاصل ہوتی ہے ، ان اسکولوں پر ہی حملے کئے جارہے ہیں۔ نفرت اس قدر بڑھا دی گئی ہے کہ فرقہ پرست تعلیمی اداروں کو بھی خاطر میں نہیں لارہے ہیں۔ اسی طرح کے حملہ کرنے والے کوئی بڑے قائدین یا ان کی اولادیں نہیں ہیں بلکہ غریب پارٹی ورکرس ہیں یا پھر وہ لوگ ہیں جنہیں ذات پات کی بنیاد پر سب سے بدتر کردیا گیا۔ ایسے لوگوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ ہمیں ادنیٰ ذات تصور کرنے والے ہمارے چھونے پر کھانا پھینک دینے والے ہمیں عیسائیوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اپنا اُلو سیدھا کررہے ہیں۔ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کررہے ہیں اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف ان لوگوں کو استعمال کرنے والے اپنے آرام دہ گھروں یا دفتروں میں بیٹھے سوشیل میڈیا کے ذریعہ نفرت پھیلا رہے ہیں۔
فرقہ وارانہ سیاست کرنے والوں اور فرقہ وارانہ سیاست کے ذریعہ عوام کو بیوقوف بنانے والوں کا ایقان ہے کہ اسلام اور عیسائیت بیرونی مذاہب ہیں۔ اس ضمن میں بابائے قوم مہاتما گاندھی لکھتے ہیں ’’ہر قوم اپنے مذہب اور عقیدہ کو سب سے اچھا، سب سے برتر سمجھتی ہے اور دوسرے مذاہب پر اپنے مذہب کو فوقیت دیتی ہے۔ ایسے میں ہندوستانی جس عظیم مذہب کو مانتے ہیں اور وہی مذہب ان کیلئے کافی ہے اور ہندوستان کا یہی موقف ہے کہ یہاں تبدیلی مذہب کی ضرورت ہی نہیں ہے اور پھر وہ ہندوستان میں جو مذاہب ہیں، ان پر روشنی ڈالتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ عیسائیت اور یہودیت کے ساتھ ساتھ ہندوازم اور اس سے نکلے دوسرے مذاہب کے علاوہ اسلام اور مجوسیت یہاں کے اہم مذاہب ہیں۔ہندوستان میں اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کوئی بھی اپنا مذہب تبدیل کرسکتا ہے اور ہر شہری کو اخلاقی، سماجی اور قانونی سطح پر اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی آزادی ہے اور اس حق کا دستور کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کے صدرنشین ڈاکٹر بھیم راؤ بابا صاحب امبیڈکر نے غیرمعمولی استعمال کیا جنہوں نے ہندو مذہب ترک کرکے بدھ ازم اختیار کیا تھا۔ بہرحال ملک میں تبدیلی مذہب کے نام پر چیخ و پکار کرتے ہوئے گھر واپسی کا بھی شور مچایا جارہا ہے۔ ہندوستان میں دشمنی یا نفرت پھیلانے کی ضرورت نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔