تبلیغی جماعت بہانہ ہے! اصل میں امت مسلمہ نشانہ ہے!!!

   

محمد فرزان احمد
صحافت کے ایک ادنی سے طالب علم کی حیثیت سے چند باتیں قارئین سیاست کے لیے گوش گذار کی جارہی ہیں۔کورونا وائرس کو لے کر جو سیاست کا ننگا ناچ ہندوستان میں کھیلا جا رہا ہے وہ انتہائی منظم اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہے سنگھ پریوار اور اس کے حامیوں کی جانب سے جس انداز میں تبلیغی جماعت پر الزامات لگ رہے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں اور بوکھلاہٹ کا نتیجہ بھی ۔

کورونا وائرس کے ہزار سے بھی کم کیسیس سامنے آتے ہی جس جلد بازی میں اور اچانک ملک میں لاک ڈاون کیا گیا وہ خود اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت نے غلطی کا ارتکاب کیا ۔ملکی معیشت انتہائی بدترین دور سے دوچار تھی یس بنک اور دیگر اقتصادی معاملات کو لے کر مسلسل مسائل جاری ہی تھے پھر سونے پہ سہاگہ کہ لاک ڈاون کے دوران ہزاروں لیبرس پیدل اپنے آبائی مقامات کو روانہ ہونا شروع ہوگئے۔پھر اموات کی خبریں سامنے آتے ہی مزید شرمندگی۔ساری دنیا میں ملک کی رسوائی شروع ہوگئی ۔ بغیر مہلت دئے لاک ڈاون کو لے کر مودی کی حکومت کو ملامت کا نشانہ بنایا گیا۔معیشت کی بدحالی پھر حکومت کی تقریبا ہر محاذ پر ناکامی اور اب کورونا وائرس سے دنیا بھر میں مسائل کا جنم لینا۔پھر کیا تھا تنقیدوں سے زچ ہوکر “موذی شاہ ” نے نیا منصوبہ تیار کرلیا ۔

پہلے ہی سے خبر تھی کہ مرکز نظام الدین دہلی میں لگ بھگ دو ہزار افراد پھنسے ہوئے ہیں اور اب پھنسے ہوئے لوگوں کو بنیاد بناکر پوری مسلم برادری کو نشانہ بنانے کا کام شروع ہوگیا ۔جو نظام الدین کو جانتے بھی نہ تھے وہ بھی کہنے لگے کہ اسلام پھیلانے والے لوگوں نے سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال نہیں رکھا۔بڑا مجمع ایک جگہ مسلسل رہ گیا ۔مسجد میں دو ہزار لوگ موجود تھے۔ قانون کی خلاف ورزی کی گئی ۔گودی میڈیا کو تو ایسی مصالحہ دار خبروں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے ۔

خوب نمک مرچ لگا کر بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا۔یہاں تک کہ یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ملک میں کورونا وائرس کا اثر کم ہوگیا تھا لیکن تبلیغی جماعت والوں نے وائرس پھیلادیا ۔ اب کیا تھا پورے ملک میں تبلیغی بھائیوں کی سرگرمی سے تلاش شروع ہوگئی ‘ مولانا سعد کو مفرور قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا ۔ تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں پر رکیک حملے شروع ک کردیے گئے ‘ مسلمانوں پر الزامات کا ایک سلسلہ شروع کریا گیا جو کہ تادم تحریر جاری ہے‘ ملک میں کرونا کا اثر کم ہوگیا تھا لیکن تبلیغ والوں نے اس کو پھیلادیا ۔ یہ الزام بظاہر برا نہیں لیکن جس انداز سے میڈیا پیش کررہا ہے وہ سخت قابل مذمت ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ پوری ہندوستانی برادری کو اس مہلک وبا کووڈ انیس کا مشترکہ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ایک مسلم برادری کو نشانہ بنایا جانا اور الزامات کی بوچھاڑ کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے ۔

ملک کی تقریبا ہر ریاست کے لوگ مرکز آتے جاتے رہتے ہیں اب ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد ساری ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تبلیغی جماعت کو پکڑ پکڑ کر ‘ ہسپتالوں کو روانہ کیا جارہا ہے اور چن چن کر ‘ کر قرنطینہ میں رکھا جارہا ہے ۔ حالانکہ یہ بات صاف کردی گئی ہ ہیکہ ‘ تبلیغی جماعت کا اجتماع لاک ڈاون سے پہلے وسط مارچ میں ہی ہوگیا اور پورا سال لوگ مرکز میں ہزاروں کی تعداد میں رہتے ہیں لاک ڈاون کا راتوں رات اچانک اعلان ‘وجائے جہاز و ریل گاڑی بند ہوجائے تو یہ بیچارے مسلمان جائیں تو کہاں جائیں۔بہرحال اب پورا عتاب تبلیغی جماعت پر ہے لیکن ذی شعور افراد کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ تبلیغی جماعت کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی اصلاح ہے اور مسلمانوں کو نماز اور چند بنیادی باتوں کی جانب راغب کیا جارہا ہے ۔
اصل حقیقت یہ بھی ہیکہ‘ کسی بھی ملک یا خود ہندوستان کے لیے یہ سادہ لوح جماعت خطرہ نہیں ہے۔اب صرف مسلمان برادری نشانہ ہے ۔جب سے موذی حکومت دوبارہ اقتدار میں آئی اسوقت سے ہی اسلام پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے ۔بابری مسجد کا فیصلہ ، تین طلاق کا معاملہ اورکشمیریوں پر نہ ختم ہونے والے مظالم ۔ اور اب کورونا وائرس کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانا منظم منصوبہ بند اور پوری ٹائمنگ کے ساتھ کھیل جاری ہے۔

اب خدا ناخواستہ دیگر مسلم جماعتوں اور بطور خاص تحریک اسلامی کو نشانہ بنائے جانے کا اندیشہ ہے ‘ اس لئے پوری امت مسلمہ کو متحد اور جسد واحدکی طرح ان سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ورنہ اس وطن عزیز میں مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر سازشوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ملک کو درپیش چند مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے تبلیغی جماعت کا بہانہ مودی حکومت کے ہا تھ لگ گیا اور وقتی طور پر حکومت اس میں کامیاب ثابت ہوتی نظر آرہی ہے لیکن اصل مسائل وطن عزیز کی عوام نہ بھول سکتے ہیں اور نہ بھلائے جانے چاہیے۔

ملکی معیشت انتہائی بدترین بحران کا شکار ہے اس کو بھلانا انتہائی نا انصافی ہوگی۔مودی حکومت کی غلط پالیسیوں کے بارے میں آگاہی کا کام ضروری ہے ‘نوجوان بے روزگار ہیں کسان دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں تجارت ٹھپ ہے اور گودی میڈیا صرف تبلیغی جماعت کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔
ایک سو تیس کروڑ کی آبادی والے ملک کے لیے یہ خوش آئند علامت نہیں ہوسکتی۔ اور نہ قومی میڈیا کے لیے اس طرح کی پروپگنڈہ والی خبریں زیب دیتی ہیں ۔ اور نہ ہی ملک کے بہتر مستقبل کے لیے یہ کوئی صحیح رخ ہے ‘مسلمانوں کو بدنام کرنے کی بجائے ملک کو درپیش حقیقی مسائل اجاگر کرنا اور اس کے حل کے لیے تجاویز پیش کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا