تجارتی جنگ ‘ جلد اختتام ضروری

   

یہ بھی آرائشِ ہستی کا تقاضہ تھا کہ ہم
حلقۂ فکر سے میدانِ عمل میں آئے
امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے دوسری معیاد میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے حالات اتھل پتھل ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی کسی جزیرہ کو خریدنے کی بات ہو رہی ہے تو کبھی کناڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے کا منصوبہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ کبھی غزہ سے فلسطینیوں کا تخَیہ کرنے اور کسی دوسرے ملک میں بسانے کی بات ہو رہی ہے تو کبھی کسی ملک پر بھاری شرحیں عائد کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ کبھی ایران کو دھمکاتے ہوئے غزہ کے انتہائی غیر انسانی حالات سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے تو کبھی کسی اور ملک پر تحدیدات عائد کرنے کے فیصلے ہو رہے ہیں۔ کبھی امریکہ میں مقیم بیرونی افراد کو نکال باہر کیا جا رہا ہے تو کبھی حق پیدائش سے متعلق نئے قوانین نافذ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ غرض یہ کہ دنیا بھر میں اتھل پتھل برپا کردی گئی ہے اور حالات کو مستحکم ہونے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ ابتداء میں تجارتی جنگ کا آغاز کرتے ہوئے کئی ممالک پر بھاری شرحیں عائد کردی گئی تھیں۔ شرحیں عائد کرتے ہوئے ان کو التواء میں رکھا گیا تاکہ دھمکی آمیز موقف کے ذریعہ تجارتی معاہدات کو قطعیت دی جاسکے ۔ کئی ممالک نے اس صورتحال میں امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدات کو قطعیت دے بھی دی ہے ۔ تاہم کئی ممالک بشمول ہندوستان ایسے بھی ہیں جو امریکہ کی تجارتی دھمکیوں کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہیں اور وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی چین ‘ برازیل اور کناڈا جیسے ممالک ہیں جو امریکہ کو منہ توڑ جواب دینے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ بھی امریکی اشیاء پر جوابی تحدیدات عائد کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ چین کے معاملے میں صدر ٹرمپ نے اپنے موقف میں نرمی پیدا کرتے ہوئے شرحوں میں کمی اور تجارتی معاہدہ کیلئے رضامندی کا اظہار کیا تھا ۔ یہ محض اس لئے ہوپایا تھا کیونکہ چین نے امریکی اشیاء پر بھی تحدیدات کی دھمکی دی تھی ۔ تین ماہ کیلئے شرحوں کو معطل رکھتے ہوئے امریکہ نے کئی ممالک پر دباؤ بنایا اور پھر تجارتی معاہدہ کو امریکی شرائط کے مطابق قطعیت دلانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی ۔ اب اس جنگ کا دوسرا مرحلہ شروع کردیا گیا ہے ۔
جن ممالک نے تاحال امریکی شرائط کو تسلیم نہیں کیا ہے اور جوابی شرحیں عائد کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ان کے تعلق سے بتدریج فیصلے کرتے ہوئے شرحیں نافذ کی جا رہی ہیں۔ ان شرحوں پر اطلاق کو بھی معطل رکھا جا رہا ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ دوبارہ شرحوں کے اطلاق پر کوئی التواء جاری نہیں کیا جائے گا ۔ یہ ساری صورتحال دنیا بھر میں معاشی اتھل پتھل پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔ کئی ممالک میں مینوفیکچرنگ سرگرمیوں پر اس کا اثر ہو رہا ہے ۔ جو ابھرتی ہوئی معیشتیں ہیں وہ متاثر ہو رہی ہیں ۔ ملازمتوں کی مارکٹ پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ کئی ممالک کی معیشتیں سست رفتاری کا شکار ہوسکتی ہیں اور دنیا سے غربت کے خاتمہ کی کوششیں شدید متاثر سکتی ہیں۔ امریکہ کو دنیا کے کسی ملک کی فکر نہیں ہے وہ محض اپنے فائدہ اور مقصد کی تکمیل کیلئے دنیا بھر کو دھمکانے میں مصروف ہے ۔ جن ممالک کے جوابی اقدامات سے امریکی معیشت متاثر ہوسکتی ہے ان کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے دوہرے معیارات اختیار کئے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تجارتی جنگ کو جلد ایک اختتام تک پہونچایا جائے ۔ جن ممالک کے ساتھ معاہدات کئے جانے ہیں ان کے بھی مفادات کا خیال رکھا جائے ۔ مساویانہ بنیادوں پر معاہدوں کو قطعیت دینے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ محض اپنی شرائط لاگو کرتے ہوئے معاہدے طئے کروانے کی حکمت عملی کے ساری دنیا کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
دنیا بھر پر اجارہ داری کی حکمت عملی سے امریکہ کو گریز کرنا چاہئے ۔ جو تجارتی جنگ شروع کی گئی ہے اس کے اثر سے اتھل پتھل پیدا ہوگئی ہے اور اس کے اثرات دنیا بھر میں غریب عوام پر ہی مرتب ہوسکتے ہیں۔ تجارتی معاہدات میں اپنے مفادات کا تحفظ ہر کسی کا حق ہے لیکن دوسروں کے مفادات پر سمجھوتے کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ جتنا جلدی یہ تجارتی جنگ اپنے اختتام کو پہونچے گی اتنا ہی دنیا کیلئے مفید ہوسکتا ہے ۔ معاشی سرگرمیوں میں روانی پیدا ہوسکتی ہے اور معیشتوں کے استحکام پر توجہ کی جاسکتی ہے ۔ ان امور پر ڈونالڈ ٹرمپ کے انتظامیہ کو فوری طورپر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔