تحریک خلافت کے سو سال اور ہندو مسلم اتحاد

   

وینکٹ پارسا
سال 2020ء ہندوستان میں شروع کردہ تحریک خلافت کے 100 ویں سال کی حیثیت رکھتا ہے اور شائد آج کی نسل کو یہ معلوم نہیں کہ ہمارے ملک کی جدوجہد آزادی کے دوران تحریک خلافت نے ہندومسلم اتحاد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1920ء میں کل ہند خلافت کمیٹی قائم کی گئی اور پھر خلافت کے منشور کی اشاعت عمل میں آئی۔ تحریک خلافت اور اس کے منشور کا مقصد دراصل ترکی کی خلافت عثمانیہ کو بچانا تھا اس وقت سلطنت عثمانیہ پر برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے پابندیاں عائد کردیں تھیں، ان پابندیوں کے خلاف ہندوستان میں احتجاج شروع کیا گیا اور اس اتحاد کو تحریک خلافت کا نام دیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے اقدامات کئے گئے اور اس کے لیے معاہدہ سیورے SEVRES ترکی پر مسلط کردیا گیا۔ یہ معاہدہ خلافت عثمانیہ کے لیے اس لیے خطرناک تھا کیوں کہ اسی معاہدہ کے نتیجہ میں تمام بیرونی مفتوحات یا مفتوح علاقہ ترکی سے چھین لئے گئے۔ یہاں تک کہ اس معاہدہ کے تحت ترکی پر فضائی فوج رکھنے پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ پھر دریائے دانیال پے اتحادیوں کی بالادستی قائم کردی گئی۔ واضح رہے کہ ہندوستان سے خلافت عثمانیہ کی تائید و حمایت اور اس کے تحفظ کے لے کئی وفود برطانیہ، اٹلی اور فرانس گئے انہیں مسلمانان ہند سے کئے گئے ان کے وعدوں کی یاد دہانی کروائی لیکن ان ملکوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ آسٹریلیا اور جرمنی سے انتقام لیا گیا تو پھر ترکی کیسے بچ سکتا ہے۔
بہرحال ہندوستانی وفود کی ناکام واپسی اور معاہدے سیورے کی ذلت آمیز شرائط کے خلاف خلافت کمیٹی نے 1920ء میں تحریک موالات کا فیصلہ کیا اور گاندھی جی کو اس تحریک کا سربراہ مقرر کیاگیا۔ تحریک خلافت میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے ساتھ ساتھ ان کی والدہ کا اہم کردار رہا۔ اس وقت تحریک خلافت کے حق میں یہ نعرہ ’’کہتی ہے اماں محمد علی کی… جان اپنی خلافت پہ دے دو بہت مقبول ہوا جبکہ برطانیہ فرانس اور اٹلی تحریک خلافت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ ان حالات میں ترکی میں خلافت کے دشمنوں نے مصطفے کمال اتاترک کی حوصلہ افزائی کی۔ 1923ء میں مصطفے کمال اتاترک کی مقبولیت میں اضافہ ہوا (یہ اور بات ہے کہ اتاترک نے اپنی پالیسیوں اور نظریات کو عوام پر زبردستی تھوپ دیا تھا) نتیجہ میں انقلاب ترکی کے عروج حاصل کرنے کے ساتھ ہی تحریک خلافت دم توڑ گئی۔ تحریک خلافت اگرچہ ختم ہوئی یا ناکامی سے دوچار ہوئی لیکن ہندوستان میں اس کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی تھی کیوں کہ تحریک خلافت نے جدوجہد آزادی میں ہندوئوں اور مسلمانوں کو متحد کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک خلافت ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تحریک نے مسلمانوں کو ہمارے وطن عزیز کی تحریک آزادی میں بڑے پیمانے پر شامل کیا۔ اس وقت کانگریس مہاتما گاندھی کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف عوامی تحریک شروع کرنا چاہتی تھی اور تحریک آزادی میں تحریک خلافت کے ساتھ ایک اہم موڑ آیا اور اس نے جدوجہد آزادی کو ایک غیر فعال مزاحمت سے ایک عوامی تحریک میں تبدیل کردیا۔
1920ء میں مہاتما گاندھی نے تحریک خلاف کو کانگریس کی تائید و حمایت دی اور پھر 1920ء نے تحریک خلافت اور قوم پرستی کی تحریک کے میلان کا مشاہدہ کیا ہے۔
گاندھی نے 5 ستمبر 1920ء کو ملک بھر میں انگریزوں کے خلاف تحریک عدم تعاون شروع کیا اس طرح یہ گاندھی جی کی جانب سے شروع کردہ پہلی غیر معمولی عوامی تحریک بن گئی۔ اس کے ساتھ ستیہ گرہ، نمک ستیہ گرہ، اور پھر 4 اگست 1942ء کو بالآخر ہندوستان چھوڑ دو تحریک شروع کی۔ اس طرح ان تحریکوں کے ذریعہ گاندھی جی ہندوستانی عوام کو متحرک و متحد کرنے میں کامیاب ہوئے۔

مہاتما گاندھی کے جادو نے کام کیا۔ اس کا اثر غیر معمولی تھا۔ پہلی مرتبہ یہ تحریک انگریز سامراج کے ساتھ ایک سنگین چیلنج بن کر سامنے آئی اور پھر انگریزوں نے 15 اگست 1947ء کو اپنے گھٹنے ٹیک دیئے اور ہندوستان نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرلی۔
جدوجہد آزادی میں مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خان، مولانا حسرت موہانی، مختار احمد انصاری، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی (علی برادران) کی قیادت میں مسلمانوں نے بڑھ چرھ کر حصہ لیا اور راتوں رات کانگریس دعائیہ اجتماعات و درخواستوں کی پارٹی سے ایک مضبوط عوامی تنظیم میں تبدیل ہوگئی۔ کل ہند خلافت کمیٹی کے ساتھ پنجاب میں تحریک خلافت اور بنگال میں بنگال خلافت کمیٹیاں جیسی صوبائی کمیٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔ خلافت تحریک کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس طرح جدوجہد آزادی نے بھی زور پکڑا۔ پنجاب میں لالہ راجپت رائے، بنگال میں چترنجن داس اور سبھاش چندر بوس کے علاوہ ہندوستان کے دیگر صوبوں میں اہم قائدین بھی سرگرم ہوگئے اور جدوجہد آزادی کو ایک نئی جیت عطا کی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انگریز اور دائیں بازو کے ہندو، ملک میں ہندو مسلم اتحاد سے خوش نہیں تھے ایسے میں انگریزوں نے بڑی خاموشی سے 1905ء میں بنگال کی تقسیم کے پیش نظر 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام کی تائید و حمایت کی تاکہ ہندو۔مسلم اتحاد کو کمزور کیا جاسکے۔

ویسے بھی 1857ء کی غدر کو ہندو مسلم اتحاد کے وقار کی آخری تحریک سمجھا جارہا تھا۔ اس وقت تمام مقامی حکمرانوں نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں انگریز سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔
1875ء میں ممبئی میں سوامی دیانند سرسوتی کی قیادت میں آریہ سماج کا قیام عمل میں آیا اور علیگڑھ میں سرسید احمد خان کی تحریک شروع ہوئی اور دونوں نے شمالی ہند کے ہندوئوں اور مسلمانوں میں مذہبی اور سماجی سطح پر کئی تبدیلیاں لائیں۔
سرسید احمد خان نے خود کو نہ صرف کانگریس سے دور رکھا بلکہ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ کانگریس سے دور رہیں۔ دوسری جانب آریہ سماج ہندو مہاسبھا اور پھر بعد میں سال 1925ء میں قائم آر ایس ایس نے دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کے اتحاد کی مخالفت کی۔ انگریز بھی اسی طرح ہندومسلم اتحاد کے مخالف تھے۔
1905ء میں بنگال کی تقسیم عمل میں آئی اور 1906ء میں مسلم لیگ قائم ہوئی اور اسے انگریز سامراج کی ایک بہت بڑی چال سمجھی گئی۔ اُن دونوں اقدامات سے یہی پتہ چلتا ہے تھا کہ انگریز ہندو۔مسلم اتحاد کو کمزور کرنے کے خواہاں تھے۔
سال 1909ء نے علیحدہ رائے دہی کا مشاہدہ کیا جس سے برطانوی سامراج کے ناپاک عزائم کا اظہار ہوتا تھا۔ اس کا مقصد انتخابات بھی فرقہ دارانہ بنیاد پر کروانا تھا۔

1911ء میں زبردست قومی دبائو کے نتیجہ میں بنگال دوبارہ جڑگیا اس موقع پر کولکتہ میں خوشیاں منانے کے لیے کانگریس کا اجلاس منعقد ہوا جس میں رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی آواز میں جنا گنا منا گایااور پھر کانگریس نے اسے قومی ترانہ کی حیثیت سے چنا۔ جہاں ہندوستان میں ہندو۔مسلم اتحاد کا سوال ہے ہندوستان کے لیے یہ اتحاد کوئی نیا تصور نہیں بلکہ مسلم حکمرانوں کے دور سے ہی ہندوستانی تہذیب و تمدن کی علامت رہا ہے۔ ہندومسلم اتحاد کی 1200 سالہ تاریخ ہے۔ ہندوستان کے لیے سکیولرازم کا نظریہ بھی کوئی نیا نہیں ہے بلکہ یہ ہماری تہذیب کا جزلائنفک ہے جو اشوک، اکبر اور پھر مہاتما گاندھی کے دور میں بھی کام کرتا رہا۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اردو زبان نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ لشکری زبان ہے جس میں ہندی، عربی، فارسی ترک زبان کے الفاظ ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اردو کو سرزمین ہند پر پیدا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس زبان کو ہندوئوں اور مسلمانوں نے فروغ دیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اکبر کو ہندوستانی قوم پرستی کا بابا کہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اکبر نے ہندوستان میں ہندومسلم اتحاد کی بنیاد ڈالی۔ مسلمانوں خاص کر صوفیوں نے ہندوستانی موسیقی کو فروغ دیا۔ اس معاملہ میں مغل شہزادہ داراشکوہ اور امیر خسرو کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ صوفیانہ موسیقی بھی اس تہذیب کی ایک مثال ہے۔
شرڈی سائی بابا اور کبیر کو ہندو اور مسلمان دونوں بزرگ مانتے ہیں۔ ’’بہرحال خلافت تحریک کے 100 سال ہندومسلم اتحاد کا پیغام دینے ہیں جس کے لیے مہاتما گاندھی نے اپنی جان دے دی۔