تمہارے حق میں کوئی فیصلہ ہوا ہوگا
جو یہ نظام تمہیں منصفانہ لگتا ہے
ہندوستان بھر میں تحقیقاتی ایجنسیوں کی وجہ سے مختلف گوشوں میں جوخوف کا ماحول پیدا ہوا ہے اس پر اپوزیشن کی جانب سے مسلسل تنقیدیں کی جاتی رہی ہیں اور یہ الزامات عائد کیا جاتا رہا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہوئے مخالفین کو ہراساں کیا جا رہا ہے ۔ انہیں نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ جو کچھ بھی تحقیقات ہو رہی ہیں ان میں محض سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور برسر اقتدار جماعت کی حلیف جماعتوںیا اس کے قائدین کے خلاف اگر سنگین الزامات بھی سامنے آئیں تو تحقیقات سے گریز کیا جا رہا ہے بلکہ ان کو چھپانے کی ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں مخالف سیاسی قائدین پر ہزاروں کروڑ روپئے کے اسکام میں ملوث رہنے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور جیسے ہی انہوں نے بی جے پی سے اتحاد کرلیا تمام مقدمات اور تحقیقات ختم کردی گئیں اور ان کے خلاف الزامات کو برفدان کی ندر کردیا گیا ہے ۔ کئی معاملات میں تو الزامات کا سامنا کرنے والے قائدین کو کلین چٹ تک دیدی گئی ہے ۔ انہیں حکومتوں میں شامل کرتے ہوئے اہم اور ذمہ دار عہدے تک دیدئے گئے ۔ یہ الزام عام ہوگیا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیاں غیرجانبداری سے کام نہیں کر رہی ہیں اور سیاسی اشاروں پر کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں۔سیاسی جماعتوںاور قائدین کی جانب سے الزامات تو اپنی جگہ ہیں اب ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے بھی تحقیقاتی ایجنسیوں سی بی آئی اور ای ڈی کی غیرجانبداری پر سوال اٹھایا ہے ۔ سپریم کورٹ نے آج دہلی شراب پالیسی اسکام میں بی آر ایس کی رکن قانون ساز کونسل کے کویتا کی ضمانت منظور کردی اور تحقیقاتی ایجنسیوں پر واضح کردیا کہ وہ سابق ملزمین کے گواہ معافی یافتہ بن جانے یا پھر استغاثہ کے گواہ بن جانے پر صرف ان ہی کے بیانات پر اکتفاء نہ کریں بلکہ غیرجانبداری سے تحقیقاتی کام کو انجام دیا جائے اور اسی کی بنیاد پر مقدمات چلائے جائیں۔ عدالت نے تحقیقاتی ایجنسیوں پر واضح کردیا کہ انہیں غیر جانبداری سے کام کرنا چاہئے ۔
عدالت نے من مانی انداز میں کسی کو بھی گواہ معافی یافتہ بنانے پر بھی سوال کیا اور کہا کہ آیا یہی غیرجانبدارانہ تحقیقات ہیں۔ عدالت میں جو سماعت ہوئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیوں نے دہلی شراب پالیسی اسکام میں محض ملزمین کے بیانات پر اکتفاء کیا ہے ۔ وکیل صفائی کا استدلال تھا کہ تحقیقاتی ایجنسیوں نے اس کیس میں اروند کجریوال کو سرغنہ قرار دیا ‘ منیش سیسوڈیا کو سرغنہ قرار دیا اور کے کویتا کو بھی سرغنہ قرار دیا ۔ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے بلکہ محض گواہ معافی یافتگان کے بیانات پر ہی اکتفاء کیا گیا ہے ۔ عدالت نے اس موقع پر واضح کردیا کہ گواہ معافی یافتہ کے بیانات کی توثیق یا تصدیق ٹھوس ثبوت کے ساتھ ہونی چاہئے ۔ عدالت نے اس خیال کا اظہار کیا کہ تحقیقاتی ایجنسیوں کو غیر جانبدار ہونا چاہئے ۔ عدالت کا یہ خیال انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اسی کو انصاف کی بنیاد بنانا چاہئے ۔ محض سیاسی مخالفت میں کسی کو بھی نشانہ بنادیا جائے اور جو ملزمین گرفتار کئے گئے ہیں وہ تحویل میں خود اپنے بچاؤ کیلئے کسی کو بھی ذمہ دار قرار دیں اور خود گواہ معافی یافتہ بن جائیں تو انصاف کے تقاضوں کی تکمیل نہیں ہوسکتی ۔ ان بیانات کو درست اور صحیح ثابت کرنے کیلئے تحقیقاتی ایجنسیوں کو تحقیقات کا عمل پورا کرنے کی ضرورت ہے ۔ ٹھوس ثبوت اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے اور ان ہی کی بنیادوں پر مقدمات کو عدالتوں سے رجوع کیا جانا چاہئے ۔ صرف اڈھاک بنیادوں پر سیاسی اشاروں پر کام کرنا تحقیقاتی ایجنسیوں کیلئے ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔
عدالت کے ریمارکس جہاںتحقیقاتی ایجنسیوں کیلئے اہمیت کے حامل ہیں اور ایجنسیوں کو ان پر غور کرتے ہوئے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے وہیں حکمران جماعت کیلئے بھی یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے کام کاج پر غور کرے ۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن اس کیلئے اقتدار کا بیجا استعمال نہیں کیا جانا چاہئے ۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کا استعمال نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ اس کے نتیجہ میں ایجنسیوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے ۔ ملک کے عوام کا ایجنسیوں پر بھروسہ پہلے ہی متزلزل ہوگیا ہے ۔ اسے مکمل ختم ہونے سے بچانے اور کامل اعتماد کو بحال کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ایجنسیوں کے کام میں سیاسی مداخلت کو ختم کیا جائے ۔