بالآخر بس اندھیرا ہی اندھیرا ہاتھ آئے گا
کبھی ظالم کا گھر ہردم منور ہو نہیں سکتا
ملک میں پیش آئے دہشت گردانہ کارروائیوں اور ہلاکت خیز حملوں کے معاملات میں ملزمین بری ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی معاملات ایسے ہیں جنہوں نے سارے ملک کو دہلا کر رکھ دیا تھا اس کے باوجود ان مقدمات میں جن ملزمین کو ماخوذ کیا گیا تھا وہ بری ہوگئے ہیں۔ استغاثہ اور ہماری تحقیقاتی ایجنسیاں کوئی کارروائی کرنے اور ملزمین کو کیفر کردار تک پہونچانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ گذشتہ دنوں ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں ہوئے بم دھماکوں میں ملزمین کو ایک طویل قانونی لڑائی کے بعد براء ت حاصل ہوگئی تھی ۔ ملزمین کا ادعا تھا کہ وہ بے قصور تھے اور ان دھماکوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔ شائد یہی وجہ تھی کہ تحقیقاتی ایجنسیاں ان کے خلاف جرم ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ اب تازہ واقعہ میں مالیگاوں بم دھماکوں کے معاملے میں سابق رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور دوسرے ملزمین بری ہوگئے ۔ ان ملزمین کا بھی ادعا ہے کہ وہ اس میں ملوث نہیں تھے اور انہیں بھی غلط طریقہ سے ماخوذ کیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی مزید کئی معاملات ہیں جن میں ملزمین کو عدالتوں کی جانب سے بری کردیا گیا تھا ۔ مالیگاوں بم دھماکوں کا جہاں تک سوال ہے تو سارا ملک جانتا ہے کہ اس کے پس پردہ سیاسی محرکات تھے ۔ کئی ملزمین نے تو اقبالی بیان بھی دیا تھا ۔ اس کے باوجود تحقیقاتی ایجنسیاں ان کے خلاف الزامات کو ثابت نہیںکر پائی ہیں۔ سیاسی پشت پناہی یا سیاسی اشاروں پر کام کرتے ہوئے ملزمین کے خلاف نرم رویہ اختیار کئے جانے کے الزامات ملک کی تحقیقاتی ایجنسیوں پر لگاتار عائد ہوتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ حقیقی ملزمین کو بچانے اور عوام کی نظروں سے بچانے کیلئے بے قصور نوجوانوں کو ایسے مقدمات میں فرضی طور پر ماخوذ کردیا جاتا ہے اور طویل قانونی جدوجہد اور کئی برس جیل میں رہنے کے بعد یہ نوجوان بری ہوجاتے ہیں ۔ جب تک یہ افراد بری ہوتے ہیں اس وقت تک حقیقی ملزمین سے عوام کی توجہ ہٹ جاتی ہے اور لوگ چند دن اس طرح کے معاملات پر تبصرے اور تبادلہ خیال کرتے ہیں پھر خاموشی چھا جاتی ہے ۔ یہ صورتحال تحقیقاتی عمل کیلئے افسوسناک کہی جاسکتی ہے ۔
جب ممبئی ٹرین دھماکوں کے ملزمین کو بری کیا گیا تو مہاراشٹرا حکومت نے فوری طورپر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ان ملزمین کی براء ت کے خلاف اپیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ فوری طور پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر بھی کردی گئی تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ عدالت نے بھی اتنی جلد بازی پر تبصرہ کیا تھا اور ملزمین کو دوبارہ جیل بھیجنے سے انکار کردیا تھا ۔ تاہم مالیگاوں دھماکوں کا جہاں تک تعلق ہے تو عدالت کے فیصلے کا سرکاری طور پر خیرمقدم کیا جا رہا ہے ۔ ملزمین کی جانب سے فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا فطری بات ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے تاہم جس طرح سے سیاسی قائدین اس فیصلے کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور اسے ہندو ۔ مسلم کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اس سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ابھی تک حکومت نے واضح نہیں کیا ہے کہ آیا ان ملزمین کی براء ت کے خلاف اپیل کی جائے گی یا اس فیصلے کو چیلنج کیا جائیگا یا نہیں۔ حکومت کے رویہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس معاملے میں ملزمین کو سیاسی سرپرستی اور پناہ حاصل رہی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ بی جے پی نے مالیگاوں دھماکوں میں مقدمہ کا سامنا کرنے والی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو پارلیمنٹ کا رکن بنایا اور اس کے ذریعہ خود بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اب بی جے پی کے کئی قائدین کی جانب سے پرگیہ ٹھاکر کی براء ت کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے ۔ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں بھی سیاسی مداخلت ہو رہی ہے اور شائد تحقیقاتی ایجنسیاں سیاسی دباؤ کے تحت کام کرنے پر مجبور ہیں۔
بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ بے شمار معاملات میں اگر ملزمین بری ہو رہے ہیں اور انہیں مجرم قرار نہیں دیا جا رہا ہے تو تحقیقاتی ایجنسیوں سے کیوں سوال نہیں ہو رہا ہے ۔ دھماکے ہو رہے ہیں اور لوگ جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس کے باوجود ملزمین کو عدالتوں سے سزاء دلانے میں تحقیقاتی ایجنسیاں ناکام ہو رہی ہیں۔ اسی وجہ سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایجنسیاں سیاسی دباؤ کے تحت کام کر رہی ہیں۔ حقیقی ملزمین کا سزاء سے بچنا ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال پیدا کرتا ہے اور حکومت کو ان ایجنسیوں کو جوابدہ بنانا چاہئے اور ان کے تحقیقاتی طرز عمل کا بھی از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔