ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں فرق۔۔۔جسٹس(ر) مارکنڈے کاٹجو

,

   

اس دنیا میں در حقیقت دو طرح کی دنیا ہے۔ ایک دنیا ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ،یورپ،جاپا چین اور اسٹرلییا کی ہے باقی ہندوستان سمیت دیگر ممالک کی دنیا ہے۔میں اس کے درمیان ایک فرق بتانا چاہتا ہوں میں اس وقت کیلی فورنیا میں ہوں جہاں میں سڑک پر شام کی چہل قدمی کے لیے نکلا۔ لیکن میں نے کیا دیکھا؟ جہاں میرا مقام ہے،اس گھر کے باہر کچڑے کے تین ڈبے رکھے ہوئے ہیں۔ایک ڈبہ کورا کرکٹ کے لیے اور دوسرا کمپوسٹ کے لیے اور تیسرا ری سائیکلنگ کیلئے ہے۔ ہر منگل کو میونسپلٹی کے تین ٹرک اسے اٹھانے کے لیے اتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں صاف صفائی انتہائی اہم ہے اور یہ اسے ترقی یافتہ ممالک سے ممتاز بناتی ہے۔
ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں صفائی صرف گھروں تک محدود ہے اور بعضصورتوں میں یہ بھی نہیں ہے۔ ہندوستان میں بیشتر لوگ اپنا گھر صاف رکھتے ہیں اور اپنے گھر کے باہر کچڑا پھینکنے کو غلط نہیں سمجھتے۔ اس لئے ہندوستا ن کی ہر سڑک اور سرکاری مقامات پر کچڑے کا ڈھیر لگا ہے۔ اگر کوئی ہندوستان میں کار کے اندر وسفر کررہا ہے تووہ کسی بھی سامان کے ریپیر کو راستے پر پھینکتے ہوئے ایک مہینے کے لیے بھی نہیں سوچے گا۔
امریکہ میں ہرگز ایسا نہیں ہوگا، اس لئے نہیں کہ ا نہیں کسی سزا کا خوف ہے بلکہ اس لئے کہ بچپن سے ہی والدین بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ وہ سڑک یا عوامی مقامات پر کچڑے نہ پھینکیں۔ دراصل مغربی ممالک میں کوئی شخص اپنے گھر میں بھی جہاں چاہے کوڑا نہیں ڈال سکتا۔ مغربی ممالک کے ہر گھر میں کوڑے کاڈبہ موجود ہے اور کچڑا بھی اسی میں ڈال دیا جاتا ہے یہ بات بچپن سے ہے سکھا ئی جاتی ہے۔ اگر کوئی کتا سڑک پر چہل قدمی کے لئے جاتا ہے اور کتا پوٹی کر دیتا ہے تو تو اسے اٹھا کر کوڑے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے لوگ ہمیشہ دستانے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کی سڑک پر کوئی پیشاب نہیں کر سکتا۔ ایسا کرنے پر اسے جرمانہ دینا پڑے گاکیوں کہ ہر جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں۔ مغربی ممالک میں صاف صفائی پر اس قدر کیوں مور دیا جاتا ہے؟ کیوں کہ یہ ممالک انتہائی صنعت کے حامل منظم ممالک ہیں۔ اگر کوئی ورکر یا ملازم بیمار ڑتا ہے تو اسکی بیماری دوسرے ملازمین تک پہیل سکتی ہے یہاں تک کہ منیجر بھی متاثر ہو سکتا ہے اور پوری فیکٹری ند کرنی پڑسکتی ہے۔ اسی لئے کمپنیاں بیمار ملازمین سے ہمدردی کرتی ہے اور ان سے کہتی ہے کہ وہ گھر سے ہی کام کریں۔
مغربی ممالک میں سخت قوانین ہیں جن پر سبھی کو عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔ بیشتر افراد قانون پر عمل خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ بچپن سے انہیں سکھایا جاتا ہے کہ آگر انہوں نے قانون پرعمل نہیں کیا توانکی مندگی مِکلات سے دوچار ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر کوئی شخص جہاں چاہے سڑک عبور نہیں کر سکتا ایسا کرنے کےلیے ایک پول کے پاس جانا پڑتا ہے، اور اس میں لگے سفید بٹن کو دبا دیا جاتا ہے جس سے سفید لائٹ جل جاتی ہے اسکے بعد ہی سڑک عبور کیا جاسکتا ہے۔ یہ قانون حادثات کے امکانات کو کم کرنے کےلیے ہے، کوئی شخص جہاں چاہے کارکھڑی نہیں کرسکتا بلکہ اس کے لیے ایک مخصوص جگہ پر ہی کار کھڑی کرسکتا ہے۔ قانون لوگوں کو حراساں کرنے کےلیے نہیں بلکہ یہ لوگوں کے کام کاج کو درست کرنے اور خطرات سے بچانے کےلیے ہے۔
ہندوستان میں بھی قوانین ہے مگر اکثر اس پر عمل نہیں ہوتا، مثال کے طور پر اگرکوئی وی ای پی طئے شدہ حد سے زیادہ تیز رفتار گاڑی چلا رہا ہے تو وہ پولیس کو اپنی حیثیت کا رعب دکھا کر ایسے کر سکتا ہے، امریکا ہندوستان دونوں جگہ قوانین ہے مگر امریکا میں اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ اور ہندوستان میں بے شرمی کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر بلڈنگ کے قوانین ہر امریکہ میں سختی سے عمل کیا جاتا ہے جبکہ دہلی میں ادھی سے زیادہ عمارتیں میونسپل بلڈنگ قوانین کی خلاف ورزی یا تو افسران کو رشوت دے کر تعمیر کرائی گئی ہیں۔
آلودگی انسداد قانون امریکہ اور ہندوستان دونوں ہی ممالک ہیں تاہم امریکا میں اس پر سختی سے عمل کیاجاتا ہے۔ جبکہ ہندوستان میں صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ ہندوستان میں فیکٹریاں اور چڑے کے کارخانے فضلہ کو صاف کرنے کا پلانٹ
لگانے کے بجائے انسپکٹرز کو رشوت دینا زیادہ سدتا سمجھتے ہیں۔ مغربی ممالک انتہائی مربوط معاشرہ کے حامل ہیں دوسرے الفاظ میں بیشترلوگ دوسروں پر منحصر ہیں۔اس لئے ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ان میں زیادہ بھائی چارہ اوراخوت ہے۔
مغربی ممالک میں عام آدنی کی سطح پر بدعنوانی تقر یا مفقود ہے، اور صرف اعلیٰ سطح میں پائی جاتی ہے، مثال کے طور پر کثیر قومی کمپنیوں کے ذریعہ کنٹریکٹ حاصل کرنے کیلئے غیر ملکی وزرا کو رشوت
دینا لیکن اگر کوئی پولیس والا آپ کو سڑک پر تیز رفتار ڈرائیونگ کیلئے روک لیتا ہے تو بھی انہیں رشوت دینے کی کوشش بھی نہ کریں جیسا کہ ہندوستان میں چلتا ہے۔ امکان یہی ہے کہ پولیس اہلکار آپ شائستگی سے کہے گا کہ آپ مقررہ حد سے زیادہ رفتار سے ڈرائیونگ کر رہے ہیں اس لئے آپ محتاط رہیں پولیس والا آپ کو انتباہ کرکے چھوڑ دے گا اور وہ آپ کو چالان نہیں کرے گا ۔ حتى کے اسکو یہ بھی پتہ ہوگا کہ اپ تیز چلانے کے عادی ہیں۔ اگر اپ رشوت کی پیشکش کرتے ہیں تو واقعی جرم بن جائے گا اپ کو چالان کے ساتھ جیل بھی ہوسکتی ہے۔
اسی طرح آپ انکم ٹیکس افسران کو بھی امریکا میں دھوکا نہیں دے سکتے جبکہ ہندوستان میں یہ عام بات ہے ۔
مغربی ممالک متحرک معاشرے کے عادی ہیں اور انکے طریقہ پر چلنے کےلیے وقت کی پابندی اور ڈسیپلین بہت ضروری ہے۔ دوسرے جانب ہندوستان میں سرکاری افسران جب چاہے تب آفس میں اتے ہیں جس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مضمون نگار سپریم کورٹ کے سابق جسٹس ہیں