تریپورہ تشدد، نفرت اور فرقہ واریت

   

رام پنیانی
معاصر ہندوستانی معاشرہ کی تاریخ اس کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف مسلسل تشدد سے بھری پڑی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے عیسائیوں کے اعلیٰ مذہبی رہنما پاپائے روم سے ملاقات کی ان سے بغلگیر ہوئے جس وقت وہ پاپائے روم سے بغلگیر ہو رہے تھے ان سے تحفہ تحائف وصول کررہے تھے ہندوستان میں عیسائیوں کے خلاف تشدد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ اگرچہ تشدد کا سب سے زیادہ نشانہ مسلم کمیونٹی رہتی ہے لیکن بعض مقامات پر فرقہ پرست طاقتوں کے تشدد کی زد میں عیسائی برادری بھی آجاتی ہے اگر دیکھاجائے تو فرقہ وارانہ تشدد کا سماجی حرکیات پر اثر ہوتا ہے ۔یہاں یہ بھی پتہ چلتا ہیکہ مسلمانوں کے خلاف تشدد میں بے تحائشہ اضافہ ہوا ہے۔ انہیں دیوار سے لگانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں میں فرقہ پرست طاقتوں کے نتیجہ میں ہی احساس بیگانگی احساس عدم تحفظ بڑھتا جارہا ہے اور خاص طور پر انہیں اس وقت الزامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب ہند۔ پاک کرکٹ میچ ہوتا ہے تب فرقہ پرستوں کے خیال میں جب کسی میچ میں پاکستان کی کامیابی ہوتی ہے تو بعض مسلمان آتشبازی کے ذریعہ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں (جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا) ہندوستان میں ہر چیز کو چاہے وہ کرکٹ میچ ہی کیوں نہ ہو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا رواج زور پکڑ گیا ہے تو سرحد پار یعنی ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں بھی فرقہ وارانہ خیالات و نظریات پھیلانے والوں کی کوئی قلت نہیں۔ پڑوسی ملک کے ایک وفاقی وزیرنے انتہائی بے وقوفی کی بات کی۔ انہوں نے T-20 ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں ہندوستان کے خلاف پاکستان کی فتح کو اسلام کی جیت قرار دیا۔ اس لابی سے تعلق رکھنے والے ایک کرکٹر نے یہ کہہ کر اپنی ذہنی پستی کا ثبوت دیا کہ ہندوؤں کے سامنے نماز کی ادائیگی برتری کی ایک اور علامت ہے۔ اس طرح کے بیانات سے ایسا لگتا ہے بیوقوفی کی کوئی حد نہیں جس وقت ہند۔ پاک میچ پر ملک اور سرحد پار سے عجیب و غریب بیانات منظر عام پر آرہے تھے۔ اس وقت ریاست تریپورہ فرقہ وارانہ تشدد کا مشاہدہ کررہی تھی۔ بی جے پی کی زیر اقتدار اس ریاست میں صرف اس بہانے تشدد برپا کیا گیا کہ درگا پوجا کے دوران بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد برپا کیا گیا۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے بدبختانہ اور قابل مذمت ہی کہا جاسکتا ہے۔ تریپورہ میں آپ کو بتادوں کہ کئی دہوں تک کمیونسٹوں کا اقتدار رہا اور پچھلے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے کمیونسٹوں کو اقتدار سے بیدخل کردیا۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس ریاست میں برسوں کمیونسٹس اقتدار میں رہے اور ان کے اقتدار کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔ جہاں تک تریپورہ میں تشدد برپا کئے جانے کا سوال ہے وی ایچ پی، آر ایس ایس اور اس کی ملحقہ دیگر ذیلی تنظیموں کی زیر قیادت نکالی گئیں ریالیوں کے بعد تشدد پھوٹ پڑا۔ وہاں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں نے مختلف مقامات پر ریالیوں کا اہتمام کیا جس میں ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے والے نعرے بلند کئے گئے۔ ایک ایسا نعرہ بھی بلند کیا گیا جس میں کہا گیا کہ حقیقی ہندوؤں کا متحد ہونا اور کارروائی کرنا ضروری ہے۔ ہندوؤں کو سیاسی اور دیگر اختلافات سے بالاتر ہوکر متحد ہونا چاہئے۔
ان ریالیوں نے ہندوؤں میں یہ احساس پیدا کیا کہ وہ خطرے میں ہیں اور ان میں اسی طرح احساس خوف پیدا کیا گیا۔ ساتھ ہی جھوٹی اطلاعات پھیلائی گئیں۔ اگر مسلمان سرحد پار ہندوؤں کو تنگ کرسکتے ہیں، انہیں تشدد کا نشانہ بناسکتے ہیں اور وہ بھی چند کیلومیٹر دور تو پھر یہاں ہندوؤں پر انہیں حملہ کرنے سے کون روکے گا؟ اس طرح کے بیانات منظر عام پر لائے گئے۔ یہ بھی نعرے لگائے گئے کہ بنگلہ دیش میں ہندو کو حفاظت خود اختیاری کے لئے اسلحہ فراہم کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد پر جو ریالیاں نکالی گئیں ان ریالیوں کے بعد تشدد پھوٹ پڑا۔ ریاستی حکومت نے یہ ظاہر کیا کہ وہ تشدد بھڑکانے والوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ اس کے ان دعوؤں کے باوجود تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔ مساجد اور مسلمانوں کی املاک پر حملے کئے جاتے رہے۔ انہیں نذر آتش کیا جاتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً نفرت پر مبنی جرائم کے 20 واقعات پیش آئے۔ 15 مساجد پر اشرار نے حملہ کیا اور 3 مساجد کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا(شہید کیا گیا) اور یہ سب کچھ ہوتا رہا جبکہ پولیس یہ دعویٰ کرتی رہی کہ وہ تشدد پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف تھی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ڈاکٹر وبھوتی نارائن رائے کے مطابق کوئی بھی فرقہ وارانہ تشدد 48 گھنٹوں سے زائد باقی نہیں رہ پاتا ہاں یہ الگ بات ہیکہ ریاست مداخلت نہ کرے۔ تریپورہ میں تشدد کو ہوا دینے والوں نے افواہوں کو بہت زیادہ ہوا دی۔ جہاں لوگوں کو اشتعال دلانے انہیں اکسانے کے لئے افواہیں پھیلائی گئیں وہاں زبانی طور پر بھی بڑے پیمانے پر پروپگنڈہ کیا گیا۔ دیگر مذاہب کے ماننے والوں بعض دوسرے طبقات کے لئے نفرت پھیلانے میں سوشل میڈیا بھی ایک طاقتور آلہ ثابت ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ بتایا گیا کہ اکثریتی طبقہ اقلیتوں کے مظالم کا نشانہ بنا ہے۔ غرض اکثریتی طبقہ کو متاثرہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور سوشل میڈیا پر یہ شیطانی چال کام کر گئی اور معاشرہ کو اپنی دروغ گوئی کی گرفت میں لیا۔ اس کی گرفت سے چھٹکارہ پانا آسان نہیں تھا۔ آئی ٹی سیل نے بھی نفرت پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ہم کس آئی ٹی سیل کی بات کررہے ہیں آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ کیسے نفرت پھیلانے میں کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ اس سے بھی سب اچھی طرح واقف ہیں آئی ٹی سل کی دروغ گوئی سوشل میڈیا پر جھوٹے اور فرضی پوسٹس نفرت پھیلانے کی معاندانہ کوششوں نے اپنا کام کیا اور غریب ہندو ، اقلیتوں کے خلاف میدان میں اتر پڑے۔ وہ بیچارے یہ جاننے سے قاصر رہے کہ انہیں امن کی دشمن طاقتیں اپنے ناپاک عزائم و مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کررہی ہیں۔
ملک میں صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کے خلاف بھی نفرت کی سوداگری کی جارہی ہے۔ جبکہ جہاں موقع ملے وہاں ان دونوں اقلیتی طبقات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر احمد آباد کے آنند میں ایک ہوٹل کے سامنے سڑک کو صرف اس وجہ سے اکھاڑا جارہا ہے کیونکہ ہوٹل کا ایک پارٹنر مسلمان ہے۔ اس سے پہلے یعنی 92-93 میں ممبئی، 2002 میں گجرات، 2008 میں کندھامل اور 2013 میں مظفر نگر جیسے مقامات پر بڑے پیمانے پر فسادات برپا کرکے مسلمانوں اور عیسائیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ 2014 کے بعد دارالحکومت دہلی میں پچھلے سال یعنی 2020 کو بھیانک مسلم کش فسادات کروائے گئے جس کا مقصد مسلمانوں کو شاہین باغ تحریک کے لئے ایک سبق دینا تھا۔ شاہین باغ تحریک کو بلاشبہ آزاد ہند کی سب سے بڑی اور جمہوری تحریک کہا جاسکتا ہے۔ جیسے ہی دہلی میں فساد برپا کیا گیا امذہبی خطوط پر لوگوں کو تقسیم کردیا گیا۔ اقلیتوں کو فرقہ پرستوں اور بلوائیوں نے چن چن کو نشانہ بنایا جن ریاستوں میں فرقہ پرست طاقتوں کی حکومت ہے یا وہاں ان کی اجارہ داری ہے (ریاستی اداروں جیسے بیورو کریسی اور پولیس میں دراندازی کے ذریعہ) اقلیتوں کے خلاف درندگی پر خاموشی اختیار کی جاتی رہی ہے اور بے قصور لوگوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے مناسب اقدامات نہیں کئے جاتے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حکمراں جماعت کو اقلیتوں کے ووٹوں کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ ان کے ووٹوں پر انحصار کرتی ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر اصغر علی انجینئر کا حوالہ دینا چاہوں گا جنہوں نے ہندوستان میں فرقہ وارانہ تشدد پر عظیم علمی کام کیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہیکہ فرقہ وارانہ تشدد کا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے جبکہ مذہب کو سیاسی کھیلوں کو چھپانے کی ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔