حضرت پیر کرم شاہ ازہری ؒ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضور کریم (ﷺ) جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے تو یہ سورت نازل ہوئی۔ یہاں اسلام دعوت کے جو مخاطب تھے وہ مکہ کے باشندوں سے مذہبی، ذہنی اور عمرانی اعتبار سے مختلف تھے۔ خود دعوت اسلامی جس مرحلہ میں داخل ہو رہی تھی اس کی ضروریات اور تقاضے بھی بالکل نئے تھے۔ یہ سورت چالیس رکوع اور دوسو چھیاسی آیتوں پر مشتمل ہے ، جس کے الفاظ چھ ہزار اکتیس اور حروف کی تعداد بیس ہزار ہے۔ مکی سورتوں کے اعتبار سے بین اور صاف فرق معلوم ہوتا ہے۔
اہل مکہ مشرک وبت پرست تھے۔ وحی، نبوت، قیامت وغیرہ کا کوئی تصور ان کے ذہن میں نہ تھا۔ قتل وغارت اور لُوٹ مار میں وہ فخر اور لذت محسوس کرتے تھے۔ اس لئے مکہ میں جو سورتیں نازل ہوئیں ان میں اُنہیں عقائد باطلہ اور اعمال فاسدہ کی اصلاح پیش نظر تھی۔ یثرب کے اصلی باشندے گو انصار تھے لیکن قوت واقتدار یہود کے ہاتھ میں تھا۔ اور انصار مذہبی اور ذہنی طور پر یہود سے بہت متاثر تھے۔ یہود کیونکہ اہل کتاب تھے اس لئے وحی، رسالت، قیامت ، جنت ، دوزخ وغیرہ پر ان کا ایمان تھا ۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اپنی قومی برتری کے نشہ میں اس حد تک مست تھے کہ وہ یہ تصورہی نہیں کر سکتے تھے کہ ان کے علاوہ نبوت کسی اور کو بھی عطا کی جا سکتی ہے ۔ عملی اعتبا ر سے ان کی پستی کی یہ حالت تھی کہ وہ معمولی سے دنیاوی فائدہ کے لئے تورات کی واضح آیتوں کا انکار بلکہ ان میں تحریف کرنے میں ذرا جھجک محسوس نہ کرتے۔ تجارت کی منڈیوں پر ان کا قبضہ تھا۔ یثرب کی زرخیز زمینیں اور شاداب باغات ان کی ملکیت میں آچکے تھے۔ علم ودانش میں انصار کو ان سے کوئی نسبت ہی نہ تھی۔ آئینی طور پر نہ سہی لیکن عملی طور پر حکومت یہود کی تھی۔یہ حالات تھے جب رحمت دو عالم (ﷺ) نے مدینہ میں قدم رنجہ فرمایا اور یہود وانصار کو اسلام کی دعوت دی۔ یہود تو تلملا گئے۔ انہیں اپنی عظمت وجلال کے محلات مسمار ہوتے دکھائی دینے لگے۔ کہاں ان کی خود بینی اور خود پرستی اور کہاں ایک نئے دین کے قبول اور ایک نئے رسول کی اطاعت کی دعوت ،یہود کیسے اس دین کو قبول کر لیتے۔ ان کے سامنے تو رکاوٹوں کے کئی پہاڑ تھے۔ ایک سے ایک بلند اور ایک سے ایک کٹھن۔ اب قرآن کا کام یہ تھا کہ ان رکاوٹوں کو دور کرے اور ان فلک بوس چوٹیوں کو پیوند خاک۔ اسی لئے مدینہ طیبہ میں جو پہلی سورت نازل ہوئی اس کے کئی رکوع یہودکی اصلاح کے لئے وقف ہیں۔
دوسری نئی صورت حال جس سے مدینہ میں اسلام کو واسطہ پڑا وہ یہ تھی کہ انصار کی اکثریت کے اسلام قبول کرلینے کے بعد اور مکہ سے مسلمانوں کی ہجرت کے بعد اسلام متفرق اور منتشر افراد کا مذہب نہیں رہا تھا بلکہ ایک جماعت اور ایک قوم کا دین بن گیا تھا اور قوم بھی ایسی جس میں ترقی اور برتری کی بےپناہ صلاحیتیں بیدار ہو رہی تھیں۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ ایسے مضبوط خطوط پر ان کی تنظیم کر دی جائے کہ کثرت وحدت میں کھو جائے۔ اور کوئی گوشہ ایسا نہ رہے جس میں بدنظمی اپنے قدم جما سکے ۔ اسے اب ضرورت تھی ایسے قانون کی جو ان کے دیوانی اور فوجداری مقدمات کا فیصلہ کرے۔ ایسے اقتصادی نظام کی جو عدل وانصاف پر مبنی ہوتے ہوئے معاشی خوشحالی کا ضامن ہو۔ سیرت واخلاق کے ایسے قالب کی جس میں ملت کا ہر فرد اپنے کردار کو ڈھالے تاکہ اس کی خوبیاں اور نیکیاں اجتماعی رنگ اختیار کر لیں۔ اسے ضرورت تھی ایک ایسے آئین کی جس پر ان کی عالم گیر سیاست کی بنیاد رکھی جائے۔ ان اہم ضروریات کے پیش نظر اس سورت میں قانون، اخلاق، آئین اور سیاست کے بیشتر قواعد وضوابط بیان فرما دئیے گئے ہیں۔ایک اور چیز بھی غور طلب ہے۔ مکی زندگی میں تو مسلمان کفار کے ظلم وستم سہتے اور چپ ہو جاتے۔ مدینہ طیبہ میں جب مسلمان اکٹھے ہو گئے تو کفار نے اپنی اجتماعی طاقت سے اسلام کو مٹانے کا عزم کر لیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے بندوں کو کفر سے ٹکر لینے کی اجازت دے دی اور انہیں یہ بتایا کہ اپنی بےکسی اور بےبسی اور مخالفت کی قوت وسطوت سے مت گھبراؤ ۔ فتحیاب تو وہی ہوتا ہے جس کے شامل حال میری تائید اور نصرت ہوتی ہے ۔ اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔ یقیناً تمہیں غالب ومنصور ہو۔ ملت اسلامیہ کے لئے قبلہ کا تعین بھی فرما دیا تاکہ ان کی توجہات کا ظاہری مرکز بھی ایک ہی ہوجائے اور ان کی عبادتیں انتشار کا شکار ہو کر اپنی جماعتی حسن نہ کھو دیں۔اگر اِن اُمور کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آپ سورۂ بقرہ کا مطالعہ کریں گے تو شاید زیادہ مفید ثابت ہو۔