تعارف سورۃ الواقعہ

   

ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری
نام: اس کی پہلی آیت میں ’’الواقعۃ‘‘ کا کلمہ ہے یہی اس کا نام ہے۔ اس سورۃ میں تین رکوع، چھیانوے آیتیں، تین سو اٹھہترکلمے اور ایک ہزار سات سو تین حروف ہیں۔
نزول: حضرت حسن بصری، عکرمہ ، جابر اور عطاء کے نزدیک یہ تمام مکہ میں نازل ہوئی۔ البتہ حضرت ابن عباس کا ایک قول یہ ہے کہ اس کی چند آیات مدنی ہیں۔ صحیح یہی ہے کہ یہ بتمامھا مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔علامہ سیوطی نے ’الاتقان‘ میں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓسے ترتیب نزول یہ لکھی ہے۔ پہلے سورۂ طٰہٰ پھر الواقعہ اور اس کے بعد ’الشعراء‘۔ حضرت فاروق اعظم سن ۵ نبوی میں ایمان لائے۔ یہ سورۃ ا س سے پہلے نازل ہوچکی تھی کیونکہ جب آپ نے اپنے بہنوئی اور بہن کو زدو کوب کیا تو آپ کی بہن کا سر پھٹ گیا، اور اس کا سر پھٹ گیا، اور اس کا خون بہنے لگا۔ اس سے آپ کا دل بہت متاثر ہوا۔ آپ نے کہا مجھے وہ کتاب دکھاؤ جو تم پڑھ رہے تھے۔ آپ کی ہمشیرہ فرمانے لگیں: ’’اے عمر! تم مشرک ہو اور مشرک ناپاک ہوتا ہے‘‘۔ وانہ لا یمسھا الا الطاھر۔ اور اس صحیفہ کو صرف پاک ہی لاتھ لگا سکتا ہے۔ یہ مسئلہ اسی سورت کی ایک آیت لَّا يَمَسُّهٗ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (۷۹) میں مذکور ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سورت حضرت عمرؓ کے ایمان لانے سے پہلے نازل ہوچکی تھی۔

مضامین: جس زمانہ کے ساتھ اس سورت کے نزول کا تعلق ہے، اس وقت صرف تین باتیں زیر بحث تھیں توحید، قرآن اور قیامت ۔وقوع قیامت کے بارے میں ان کا انکار از بس شدید تھا۔ وہ اسے محال اور خلاف عقل یقین کرتے تھے ، اس لیے وہ سورتیں جو اس زمانہ میں نازل ہوئیں ان میں قیامت کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی طرف خصوصی توجہ مبذول فرمائی گئی ہے۔اس سورۃ کا آغاز وقوع قیامت کے ذکر سے ہورہا ہے۔ نیز بتایا کہ اس روز نوع انسانی تین گروہوں میں بانٹ دی جائے گی۔ داہنی طرف والے، بائیں طرف والے اور سبقت لے جانے والے ۔پہلے رکوع میں بڑی تفصیل سے السابقون اور اصحاب الیمین کے حالات ذکر کیے گئے ہیں۔ دوسرے رکوع میں اصحاب الشمال (بائیں طرف والے) کی خستہ حالی کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ جسے پڑھ کر دل پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔آیت نمبر ۵۸سے دوسرے رکوع کے اختتام تک اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت کے دلائل ایسے رنگ میں پیش کیے گئے ہیں جن کو تسلیم کرنے سے وہ بھی گریز نہیں کرسکتے ۔ آخری رکوع میں قرآن کریم کی حقانیت اور کلام الٰہی ہونے پر دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ ’’مواقع النجوم‘‘ کی قسم اُٹھا کر سامعین کو متوجہ کیا جارہا ہے کہ جس بےنظیر نظام، بےمثال باقاعدگی اور ہم رنگی کا مشاہدہ تم کواکب کی دنیا میں کر رہے ہو اسی طرح کا بےعدیل نظم ونسق اور ہر آیت کی دوسری آیت سے وابستگی تمہیں قرآن حکیم میں بھی نظر آئے گی، لیکن اس کے معانی اور معارف تک رسائی ہر شخص کا نصیبہ نہیں۔ وہ لوگ جن کا دل پاک، نگاہ پاک اور نیت پاک ہوتی ہے عروس معنی فقط ان کے لیے اپنے رخ زیبا سے نقاب سرکاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ تم اس چشمۂ شیریں سے سیراب ہوتے، اپنی پیاس بجھاتے، اپنے نخلستان حیات کی آبیاری کرتے تم نے اسے جھٹلانا شروع کردیا ہے اور روز وشب جھٹلاتے ہی رہتے ہو۔ کیا تمہارے مقدر میں صرف انکار اور تکذیب ہی ہے ۔ صد حیف! تمہاری اس نادانی پر۔
آیات ۸۳تا ۸۶میں انہیں موت کی یاد دلا کر جھنجھوڑ دیا کہ کب تک بد مست ومخمور رہو گے؟ کیا اس وقت تک بےسدھ پڑے رہو گے جب فرشتۂ اجل آکر تمہاری شہ رگ پر اپنا آہنی ہاتھ رکھ دے؟سورت کے اختتام سے پہلے پھر گزشتہ تین طبقوں کے حالات کو بالاختصار دہرادیا۔

خصوصیت: اس سورۃ کی ایک خصوصیت کے بیان میں چند احادیث مذکور ہیں۔ قارئین کے لیے ان کا مطالعہ خیر وبرکت کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس لیے انہیں یہاں درج کر رہا ہوں۔
۱۔ حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم)کو یہ فرماتے سنا کہ جو شخص ہر رات کو سورۂ واقعہ پڑھتا ہے ، اسے فاقہ ہرگز نہیں آئے گا ۔ ۲۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جو شخص ہر رات کو سورۃ واقعہ پڑھتا ہے، اسے کبھی فاقہ نہ ہوگا۔ ۳۔ حضرت انس ؓ رسول اللہ (ﷺ) سے روایت کرتے ہیں کہ سورۃ الواقعہ دولت وثروت کی سورۃ ہے۔ اسے خود بھی پڑھا کرو اور اسے اپنی اولاد کو بھی تعلیم دو۔ ۴۔ حضرت انسؓ نے حضور (ﷺ) سے نقل کیا ہے کہ حضور نے فرمایا اپنے گھر کی مستورات کو یہ سکھاؤ (یعنی یاد کرادو) کیونکہ یہ دولت وثروت کی سورۃ ہے۔