تعلیماتِ نبوی ؐ میں ماتحتوں کےساتھ حسن سلوک

   

عفو و درگزر سے کام لینا

ہر انسان بہ تقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے۔ گھریلو ملازم، خادم اور نوکر بھی اس سے مستثنی نہیں۔ ملازم، خادم چوں کہ دن رات کا بیش تر حصہ ہماری خدمت گزاری میںوقف کیے ہوئے ہیں اور حتی الامکان ہمیں آرام پہنچانے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں، تو بعض اوقات ہمارے مزاج اور منشا کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ملازم کی اپنی کوئی پریشانی یا اس کی طبیعت کی خرابی سے بھی تفویض کیا گیا کام نہیں ہوپاتا یا متاثر ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ملازم سے سرزد ہونے والی غلطی پر تحمل سے کام لیتے ہوئے درگزر کرنا چاہیے۔ اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو، تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو، تو اس کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصہ کرنے کے بجائے صبر سے کام لینا چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور ٹھنڈے لہجے اور اچھے انداز میں اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و اطمینان کا باعث بنتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے ایک آدمی رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔یارسول اللہ! (ﷺ)میں کتنی بار اپنے خادم کو معاف کروں؟ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ہر روز ستر مرتبہ۔(ترمذی شریف)حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں وہ شخص نہ بتائوں، جو آگ پر حرام اور آگ اس پر حرام ہے۔ وہ نرم طبیعت، نرم زبان، گھل مل کر رہنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔(ترمذی شریف) حضرت سہیل بن معاذؓ نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا جو اپنے غصے کو پی جائے، اگرچہ وہ اس کے مطابق کرنے پر قدرت رکھتا ہو، تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے مخلوق کے سرداروں میں بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے، پسند کرلے۔ (ترمذی شریف)خدام اور ملازمین کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو درگزر کرکے معاف کرنے والے کا دل خوفِ خدا کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔حضرت امام غزالی ؒنے فرمایا کہ خادموں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھو، یہ خیال کرو کہ یہ بھی تمہاری طرح بندے ہیں۔ اگر ان سے کوئی قصور یا کوتاہی ہوجائے، تو خود جو قصور اور گناہ کرتے ہو، ان کا خیال کرو اور انہیں یاد کرو اور جب ان پر غصہ آئے تو اللہ احکم الحاکمین کا جو اس پر قدرت رکھتا ہے خیال کرو۔ (کیمیائے سعادت)
: مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی