کوئی راستے میں ٹہرگیا کوئی منزلوں پہ پہنچ گیا
یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے نہ کسی سے کوئی گلہ کرو
تعلیمی ادارے کسی بھی ملک یا سماج میں انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ والدین اور اولیائے طلبا اپنے بچوںکو یہاں تعلیم حاصل کرنے ‘ سماج کے ایک ذمہ دار شہری بننے اور ملک کی ترقی میں اپنا رول ادا کرنے کیلئے تیار کرنے بھیجتے ہیں۔ تاہم یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبا و طالبات کے ساتھ ناشائستہ برتاؤ کیا جا رہا ہے ۔ انہیں اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ ذہنی اذیتوں کے ذریعہ بھی ان کے حوصلے پست کئے جا رہے ہیں۔ انہیں کسی نہ کسی بہانے سے ہراساں کیا جاتا ہے ۔ بعض واقعات میں تو طالبات کو جنسی ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔کچھ درندہ صفت افراد جو تعلیمی اداروں میں موجود ہیں وہ طالبات کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ کمسن طالبات کے ساتھ بھی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ انہیں غیرانسانی برتاؤ کا شکار کیا جاتا ہے ۔ ان کی عصمتوں کو داغدار کیا جاتا ہے ۔ کچھ وحشی تو ان طالبات کو موت کے گھاٹ اتارنے سے بھی گریز نہیںکرتے ۔ اس طرح کے واقعات کسی بھی مہذب سماج کیلئے کلنک سے کم نہیں ہوتے ۔ ان کے تدارک کیلئے بھی اقدامات اکثر و بیشتر کئے جاتے ہیں تاہم اس کے باوجود ان جرائم کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے ۔ حیدرآباد شہر میں بھی گذشتہ دنوں ایک معصوم طالبہ کے جنسی استحصال کا واقعہ پیش آیا تھا ۔ اس واقعہ کی وجہ سے والدین اور اولیائے طلبا میں برہمی پیدا ہوگئی تھی ۔ کئی گوشوں سے اس کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا اور اسکول کی مسلمہ حیثیت کو بھی ختم کردیا گیا تھا ۔ تاہم یہ اقدامات ایسا لگتا ہے کہ ان جرائم کی روک تھام کیلئے کافی نہیں ہو رہے ہیں۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے تعلیمی اداروں اور خاص طور پر اسکولس میں طالبات کی حفاظت اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے سفارشات پیش کرنے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔ یہ کمیٹی تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد حکومت کو اسکولس اور تعلمی اداروں میں طلباو طالبات کے تحفظ کو یقینی بنانے سفارشات پر مبنی اپنی رپورٹ پیش کرے گی ۔ اس طرح کی کمیٹی کی واقعی ضرورت تھی کیونکہ تعلیمی اداروں پر بھی اگر کمسن طالبات اور بچے محفوظ نہیں ہونگے تو پھر ان کا مستقبل تابناک نہیں ہو پائے گا ۔
تعلیمی ادارے در اصل مقدس ادارے بھی کہے جاسکتے ہیں کیونکہ یہاں طلبا و طالبات کو والدین ایک بھروسہ اور یقین کے ساتھ روانہ کرتے ہیں۔ وہاں انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہوئے انہیں ایک اچھا انسان بنایا جاتا ہے ۔ ان میں علم کی شمع کو روشن کیا جاتا ہے ۔ ان کے ذہنوں کو وسعتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ انہیں زندگی گذارنے کے طریقہ کار کو سمجھایا جاتا ہے ۔ سماجی ذمہ داریوں سے انہیں واقف کروایا جاتا ہے ۔ ان میں احساس ذمہ داری پیدا کی جاتی ہے ۔ یہی طلبا و طالبات ہیں جو ہمارے ملک کا مستبل ہوتے ہیں۔ یہی طلبا و طالبات ہوتے ہیں جو زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ ملک کی ترقی میں اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ یہ تعلیم ہی کی بدولت ممکن ہوا ہے کہ انفارمیشن ٹکنالوجی میں دنیا بھر میں ہندوستان کی صلاحیتوں کا لوہا مانا گیا ہے ۔ کئی عالمی کمپنیوں کے ذمہ دار عہدوں پر ہندوستانی نوجوان ہی فائز ہیں۔ یہ اسی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے کہ انہوں نے اچھی تعلیم حاصل کی تھی ۔ تاہم تعلیمی اداروں میں ہی طلبا و طالبات کو تحفظ حاصل نہ ہو تو پھر صورتحال انتہائی افسوسناک ہوجاتی ہے ۔ جو درندہ صفت افراد ہیں وہ معصوم طالبات کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ اس طرح کے درندہ صفت افراد کے خلاف سخت ترین کارروائیوں کو یقینی بنانا چاہئے ۔ ان کے مقدمات کی سماعت کیلئے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی جانی چاہئیں ۔
جب تک سارے قانونی نظام کو اس طرح کے جرائم سے نمٹنے کیلئے حرکیاتی اور موثر نہیں بنایا جاتا اس وقت تک اس طرح کے واقعات کے حقیقی تدارک کو یقینی بنانا آسان نہیں ہوگا ۔ تعلیمی اداروں کو بھی اپنی جانب سے اس بات کی مکمل کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے حدود میں کسی بھی طالب علم یا طالبہ کے ساتھ کوئی زیادتی یا ہراسانی نہ ہونے پائے ۔ ان کا اعتماد متزلزل نہیں ہونا چاہئے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کا مستقبل داو پر لگ جائے گا ۔ یہ در اصل ملک کے مستقبل سے کھلواڑ ہے اور ہماری تہذیب و تمدن کی دھجیاں اڑانے کی کوشش ہے ۔ حکومتوںاور تمام ذمہ دار گوشوںکو اس معاملے میں آگے آتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ تعلیمی اداروں کا تقدس پامال نہ ہو اور نہ ہی طالبات کا کوئی استحصال کرسکے ۔