ہم لوگ تو اخلاق بھی رکھ آئے ہیں ساحلؔ
ردی کے اسی ڈھیر میں آداب پڑے تھے
تعلیم ایک مقدس پیشہ ہے ۔ تعلیم کو ہندوستان میں بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور اساتذہ کابہت زیادہ احترام کیا جاتا ہے ۔ انہیں والدین کی طرح دیکھا جاتا ہے ۔ تعلیمی اداروں کا اپنا وقار اور تقدس ہوتا ہے اور یہاں بچوں کو اس یقین کے ساتھ بھیجا جاتا ہے کہ ان کے اخلاق و کردار کو بھی سدھارا جائے گا اور انہیںدنیاوی علوم سے بہرہ ور کرتے ہوئے زندگی گذارنے کے قابل بنایا جائیگا ۔ تاہم حالیہ وقتوں میں دیکھا جا رہا ہے کہ تعلیمی اداروں کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے اور یہاںغیر اخلاقی سرگرمیاں فروغ پا رہی ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور پروفیسرس تک غیر اخلاقی حرکتیں کرنے لگے ہیں اور وہ طالبات کی عزتوں و عصمتوں کو داغدار کرنے سے گریز نہیںکر رہے ہیں۔ حالیہ وقتوں میں ملک کی کئی ریاستوں میں تعلیمی اداروں میں اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں جہاں طالبات کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتیں کی گئی ہیں۔ کہیں طالبات کے ہاسٹلس میں سی سی کیمرے نصب کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں تو کہیں وارڈنس کی جانب سے طالبات کو نشانہ بنانے کے واقعات پیش آئے ۔ اب اترپردیش میں ایک پروفیسر کی جانب سے طالبات کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتیں کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے ۔ ایک نامعلوم طالبہ نے خط لکھ کر یہ انکشاف کیا ہے کہ کس طرح سے یہ پروفیسر لڑکیوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکتیں کیا کرتا تھا ۔ اس پروفیسر کے خلاف ویسے تو کچھ وقت سے ہی شکایات کی جا رہی تھیں لیکن کسی نے بھی اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی ۔ اب اس پروفیسر کی شرمناک حرکتوں کے ویڈیو اور تصاویر بھی وائرل ہوگئے ہیں جوسارے ملک میں دیکھے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں کو ایک انتہائی محفوظ مقام سمجھا جاتا تھا اور یہاں طلبا و طالبات کے بہتر مستقبل کی تعمیر کی امیدیں کی جاتی ہیں لیکن اگر تعلیمی اداروں ہی میں اس طرح کی شرمناک حرکتیں ہونے لگیں تو پھر یہ ہمارے تعلیمی نظام پر سیاہ دھبے کے مترادف ہے ۔ اس طرح کے واقعات ہمارے پورے سماج کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے ۔ اس کا سخت نوٹ لئے جانے کی ضرورت ہے ۔
یہ درست ہے کہ اس طرح کی حرکتیں یکا دوکا ہی پیش آ رہی ہیں لیکن یہ بھی ہمارے معاشرہ کیلئے شرمناک بات ہے ۔ پہلے تو ہندوستان جیسے ملک میں عام معاملات میں بھی خواتین اور طالبات کے ساتھ ظلم و زیادتیاں باعث افسوس ہیں لیکن اگر اس طرح کی حرکتیں تعلیمی اداروں میں عام ہونے لگیں تو یہ بہت زیادہ شرم کی بات ہے ۔ اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے نہ صرف حکومتوں کو سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہوگی بلکہ سماج میں بھی شعور بیدار کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ حکومتوں کو اس طرح کی حرکتوں کے مرتکب پائے جانے والے افراد کے ساتھ کسی طرح کا رحمدلی کا برتاؤ نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اس طرح کے معاملات میں کسی طرح کا دباؤ یا وابستگی قبول نہیں کی جانی چاہئے ۔ کسی کے رتبے یا مرتبہ کا خیال نہیں رکھا جانا چاہئے ۔ ایسی حرکتیں کرنے والے وحشی درندوں کے ساتھ عبرتناک رویہ اختیار کرتے ہوئے دوسروں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے ۔ اگر ہمارے تعلیمی ادارہ جات طالبات کیلئے محفوظ نہ رہیں تو بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ بے سود اور بے معنی ہوکر رہ جائے گا ۔ ہندوستان کی خواتین جو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں یہ سلسلہ بھی رک جائے گا ۔ خواتین کو سماج میں معتبر اور معزز مقام دلانے کیلئے انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا بہت ضروری ہے اور اگر تعلیمی اداروں میں اس طرح کی اخلاق سوز اور شرمناک حرکتیں پیش آنے لگیں تو والدین اپنی بچیوں کو یہاں بھیجنے سے گریز کریں گے ۔
بات صرف اترپردیش یا ملک کی کسی ایک ریاست تک محدود نہیں ہے ۔ کئی ریاستوں میں اس طرح کے واقعات پیش آنے لگے ہیںا ور اس کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے مجرمین کو سزائے موت دلاتے ہوئے دوسروں کیلئے عبرت کا نشان بنانا چاہئے ۔ سماجی تنظیموں اور اداروں کو اس طرح کے معاملات میں سرگرم رول ادا کرتے ہوئے طالبات میں حوصلہ پیدا کرنا چاہئے اور ان میں شعور بیدار کرنا چاہئے تاکہ وہ ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے آگے آئیں اور شکایات درج کروائیں۔ طالبات کو شرمندہ کرنے کی بجائے خاطیوں کو نشانہ بنانا ایسے واقعات کے تدارک میں اہم ہوسکتا ہے ۔