تعلیمی ادارے اور لڑکیوں کی حفاظت

   

تعلیمی اداروں کو ہمارے ملک میں ہمیشہ سے ایک الگ ہی مقام حاصل رہا ہے ۔ یہ انتہائی اہم اور مقدس مانے جاتے ہیں کیونکہ یہاں مستقبل کے معماروں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے ۔ تعلیم ایک مقدس پیشہ بھی ہے ۔ استاد کو نہ صرف ہمارے معاشرہ میں بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں ایک اعلی مقام دیا گیا ہے ۔ والدین کی طرح عزت و احترام کی تلقین کی گئی ہے ۔ استاد کا ایک انتہائی اعلی مقام و مرتبہ ظاہر کیا گیا ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی جانب سے بھی لڑکیوں کے جنسی استحصال کے واقعات پیش آنے لگے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں غیر اخلاقی سرگرمیاں اور بیہودہ حرکتیں بھی بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔ آئے دن ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں جن سے سارا معاشرہ شرمسار ہونے لگا ہے اور اس کے نتیجہ میں تعلیم جیسے مقدس پیشے پر بھی داغ لگ رہا ہے ۔ استاد کے مرتبہ اور رتبہ کی توہین اور ہتک ہونے لگی ہے اور لوگ اب استاد کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ صورتحال کسی ایک شہر یا کسی ایک ریاست تک محدود نہیں ہے بلکہ سارے ملک میں اس طرح کے واقعات پیش آنے لگے ہیں ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ملک بھر کے کئی شہروں میں باوقار تعلیمی اداروں میں بھی انتہائی اخلاق سوز واقعات پیش آئے ہیں۔ کہیں طلباء کی جانب سے ساتھی طالبہ کی عصمت ریزی کی گئی ہے تو کہیں خود اساتذہ نے اپنی ہی نگرانی میں تعلیم پانے والی طالبات کا جنسی استحصال کیا ہے ۔ کچھ واقعات میں اس ذہنی دباؤ اور انتہائی شرمناک حرکت سے تنگ آ کر کچھ طالبات نے خودکشی تک کرلی ہے اور اپنی جانیں گنوا دی ہیں۔ اس طرح کے انتہائی شرمناک کچھ واقعات منظر عام پر آتے ہیں جبکہ بے شمار واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جو منظر عام پر نہیں آتے اور متاثرہ لڑکیاں اسی بوجھ کے ساتھ زندگی گذارتی ہے اور پھر وہ کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ایسے کچھ اقدامات کئے جانے چاہئیں جن کے نتیجہ میں اس طرح کے شرمناک واقعات کا تدارک ہوسکے ۔
تعلیمی اداروں کا تقدس پامال کرنے والے وحشی صفت عناصر کے خلاف کارروائی تو ضرور کی جانی چاہئے تاہم اس طرح کے واقعات کے تدارک کیلئے خصوصی مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر تعلیمی اداروں میں ایسے اقدامات کئے جانے چاہئیں جن کے نتیجہ میں ایسی شرمناک حرکتیں ممکن نہ ہونے پائیں۔ گذشتہ دنوں اوڈیشہ کے بالاسور میں ایک طالبہ نے جنسی ہراسانی سے تنگ آکر خود کشی کرلی جبکہ دو دن قبل کرناٹک کے بنگلورو میں دو لیکچررس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک طالبہ کی عصمت ریزی کی ۔ دیہی اور قبائلی علاقوں میں اس طرح کے واقعات اکثر و بیشتر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جس کو اگر اب بھی روکا نہیں گیا تو پھر ہمارے معاشرہ میں تعلیم جیسے مقدس پیشے کی بھی رسوائی ہوگی ۔ تعلیمی اداروں کا تقدس پامال ہوگا اور استاد ۔ شاگر کا رشتہ بھی پامال ہو کر رہ جائے گا ۔ اس طرح کے واقعات پر اکثر دیکھا گیا ہے کہ مختلف گوشوں سے سیاست کی جاتی ہے ۔ سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے ایسے مسائل کا استحصال کیا جاتا ہے ۔ ایسی کوششوں کا ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ کہیں پس منظر میں چلا جاتا ہے اور سیاسی الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ملزمین قانونی کاررو ائی بھی موثر ڈھنگ سے نہ کئے جانے کے نتیجہ میں سزاوں سے بچنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی نہیں ہو رہی ہے اور ان کی حرکتوں کا سلسلہ دراز ہی ہوتا چلا جا رہا ہے ۔
چونکہ یہ مسئلہ کسی ایک ریاست یا کسی ایک شہر تک محدود نہیں ہے ایسے میں اس پر قومی سطح پر شعور بیداری کی ضرورت ہے ۔ سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے ۔ مشترکہ کاوشوں کے ذریعہ تعلیم جیسے مقدس پیشے کے وقار کو بحال کیا جاسکتا ہے ۔ تعلیمی اداروں کے تقدس کو پامال ہونے سے بچایا جاسکتا ہے ۔ یہ مسئلہ ملک کی بیٹیوں کا ہے ۔ ملک کے مستقبل ہے ۔ اس لئے اس پر سیاست نہیں کی جانی چاہئے بلکہ اس مسئلہ کا موثر اور دیرپا حل دریافت کرنے کیلئے کوششیں کی جانی چاہئیں۔ سماجی جہد کاروں کو بھی اس معاملے میں حرکت میں آنے اور سرگرم رول ادا کرتے ہوئے اس مسئلہ کا حل دریافت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔