تعمیر قوم میں تنوع نعمت یا رکاوٹ

   

رام پنیانی

برطانیہ سے خبر آئی ہے کہ چانسلر رشی سونک نے 17 اکتوبر 2020 کو برطانیہ کی متنوع تاریخ کی تقریب میں 50 پنس مالیتی ’’تنوع سکہ‘‘ جاری کیا ہے۔ یہ برطانیہ کی مشترکہ تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ سکے پر کندہ پیغام کے بموجب یہ اقدام ہم نے بھی برطانیہ تعمیر کیا گروپ کے دعوے کا ردعمل ہے۔ ملک کی نسلی اقلیتیں ملک کا احترام کرتی ہیں یہاں پر تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے کہ کتنی مختلف نسلی اقلیتیں برطانیہ کو اپنا دوسرا وطن بناچکی ہیں۔ اس کی اہمیت جنوبی ایشیا بشمول ہندوستان کے ممالک کی تعداد میں مضمر ہے جن پر برطانیہ نے حملہ کیا تھا۔ درحقیقت یہ سویت یونین کے زوال کے پس منظر میں سیموئل ہنٹنگٹن کے نظریہ ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کا جواب ہے۔ ہنٹنگٹن کے خیال سے سویت یونین کا زوال تہذیبی وجوہات کی بناء پر ہوا تھا نظریاتی وجوہات کی بناء پر نہیں۔ ہنٹنگٹن کے خیال کے بموجب آئندہ عالمی جنگ بھی تہذیبی تصادم کا نتیجہ ہوگی۔ نظریاتی تصادم کا نہیں۔

ہنٹنگٹن کا نظریہ برسوں تک عالمی سیاست پر چھایا رہا 11 ستمبر کے عالمی تجارتی مرکز کے جڑواں مینماروں پر حملہ بھی اسی کا نتیجہ تھا۔ اسامہ بن لادن نے 11 ستمبر کو جہاد کے آغاز کا اعلان کیا تھا اور جارج بش نے افغانستان پر اپنے حملے کو صلیبی جنگ کا نام دیا تھا جبکہ برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم ٹونی بلیر نے کہا تھا کہ مغربی ایشیا کے ممالک پر حملے خدائی کارنامہ ہیں۔ یہ نظریہ ان حملوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو مغربی ایشیا کے کئی ممالک پر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی جانب سے کئے گئے تھے تاکہ وہ ان کے وسائل پر قابض ہوسکیں۔ یہ تمام عالمی سامراجی طاقتیں اب عالمی معیشت کو متاثر کررہی ہیں ۔ اب ان کی نظر ان کے وسائل پر جمی ہوئی ہے۔
نظریاتی بنیاد پر اس فلسفے کا موثر جواب صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر کے آر نارائنن نے دیا تھا اور کہا تھا کہ تہذیبیں باہم متصادم کبھی نہیں ہوتیں۔ اگر تصادم کی کوئی وجہ ہوسکتی ہے تو وہ بربریت ہے۔ اقوام متحدہ جس کی قیادت اس وقت جنرل سکریٹری کوفی عنان کیا کرتے تھے ایک اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کمیٹی جغرافیائی خطوط سے بالاتر ہوکر قائم کی تھی تاکہ لفظ تصادم کے معنی سمجھ میں آسکے اور ان اقدامات کی سفارش کی جاسکے جن کے نتیجہ میں عوام کے تہذیبی اختلافات کی یکسوئی ہوسکے اور ان کی باہمی خیرسگالی کو فروغ حاصل ہو۔ نقل مقام کرنے والے افراد کے بارے میں ابھی عالمی شعور بیدار نہیں ہوسکا۔ مختلف برادریوں نے اپنے اتحاد کے ذریعہ مختلف سطحوں پر متنوع بنیادوں پر اقوام کی تعمیر۔
ہندوستان میں تنوع طویل مدت سے موجود ہے۔ عیسائیت ہندوستان میں داخل ہونے کے بعد پہلی صدی عیسوی میں مختلف مذہبی روایات میں تبدیلی آئی اس وقت ملک میں جین مت اور بدھ مت پہلے ہی سے موجود تھا۔ مالابار کے ساحل سے عرب تاجروں کی امداد کی وجہ سے ساتویں تا آٹھویں عیسوی میں اسلام کی آمد کا آغاز ہوا۔ صوفی سنتوں نے مسلمانوں میں ذات پات کی ترویج کی۔ مسلم تاجر شمال مغرب سے آیا کرتے تھے اور ان کا مقصد اقتدار یا دولت حاصل کرنا نہیں تھا۔ بدھ مت مختلف جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں پھیل گیا تھا۔ ہندوستانیوں نے معاشی مقاصد اور روزگار کے مواقع کی تلاش میں یا زیادہ زرخیز چراگاہوں کی تلاش میں دنیا بھر میں نقل مقام کیا۔ برطانیہ میں ہندوستانیوں کی اکثریت ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کے بعد اب آسٹریلیا میں بھی ہندوستان سے آنے والے تارکین وطن زیادہ تعداد میں ہوگئے ہیں۔ قبل ازیں کئی ہندوستانی بحرروم کے جزیرہ ماریشیس اور سیلون اور دیگر مقامات پر نقل مقام کرچکے تھے۔ اپنے دوسرے وطن میں تاریک وطن برادریوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور اپنے منفرد رویہ کی وجہ سے وہ اپنی شناخت کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اپنے ملک کے بارے میں جذبات برقرار رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ان کے ملک کی تہذیب اپنے نئے وطن کی تہذیب سے کئی اعتبار سے مختلف ہے۔
آج کثیر تعداد میں ہندوستانی مغربی ایشیا میں خاص طور پر خلیجی ممالک میں موجود ہیں ہندوستان میں علیحدگی پسند عناصر غیر مقیم ہندوستانی کے ہندوستان کے بارے میں جذبات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ہندوستانی اپنی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے اور انہیں غیر ملکی سمجھتے ہیں۔ ہندووں میں بھی کافی تنوع موجود ہے۔ ہندوستانی تہذیب مکمل طور پر سماج کے مختلف طبقات کا مجموعہ ہے۔ ہر ایک اپنے منفرد طریقوں پر ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیر اور مختلف طریقوں سے مختلف مکاتیب فکر میں اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔ ہندوستان کا تنوع مختلف طبقات میں منقسم ہے، مذہبی تہوار طبقہ کے میل جول کا اہم پلیٹ فارم ہے۔

بھکتی اور صوفی روایات نے اپنا تشخص برقرار رکھا ہے۔ اس طرح ہندوستانی تہذیب و تمدن مختلف تہذیبوں کے ایک گاڑھے شوربے کی مانند بن گیا ہے۔ ہمارا ادب اس حقیقت کا آئینہ ہے اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تنوع ہنوز ہندوستان میں برقرار ہے۔ اس طرح ہم کئی مشہور ادبی بلند قامت شخصیات اور اپنی تہذیب کے تنوع سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ یہی تنوع ہندوستان کی تحریکات آزادی کی بنیاد بھی بنا رہا ہے جس کی وجہ سے کئی عناصر اس تنوع میں شامل ہوگئے ہیں۔
اس کے برعکس ہماری قومی تحریک، فرقہ وارانہ مکاتیب فکر توحید پرست نظریات کی جانب راغب ہوگئے۔ اردو ۔ مسلم ۔ پاکستان اور اس کے جواب میں ہندی ۔ ہندو ۔ ہندوستان کے نعرے سنائی دینے لگے۔ آزادی کی تحریکیں تنوع کو برقرار رکھے ہوئے تھیں اور تنوع میں اتحاد کا نظریہ وجود میں آیا تھا ۔ تحریک آزادی کے اولین قائد جواہر لال نہرو نے اسی کا اظہار کیا تھا اور اس کا تذکرہ اپنی تصنیف ’’ڈسکوری آف انڈیا‘‘ میں کیا تھا۔
آج ہمیں برطانوی مثال سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ اقلیتیں ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں چنانچہ انہیں تسلیم کرنے، ان کی تعریف کرنے اور ان کو اہمیت دینے کی شدید ضرورت ہے۔ ہم بھی تنوع کے لئے یہی رویہ اختیار کرسکتے ہیں اور اسی کے نتیجہ میں امن اور خوشحالی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔