بہت آسان ہے مشترکہ دلوں میں تفریق
بات تو جب ہے کہ بچھڑوں کو ملایا جائے
پارلیمنٹ میں آج وندے ماترم پر مباحث ہوئے ۔ وندے ماترم حالانکہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ملک و قوم کی ترقی مربوط ہے ۔ یہ صرف تفرقہ پروری کی سیاست کو عروج دینے والا مسئلہ ہے اور چونکہ اس کے لکھنے والے بنکم چندر چٹرجی کا تعلق مغربی بنگال سے تھا اور آئندہ سال مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جن میں بی جے پی ہر مسئلہ پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس لئے وندے ماترم کے مسئلہ پر بھی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ میں مباحیث کا بھی اسی وجہ سے اہتمام کیا گیا ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایس آئی آر کے مسئلہ پر مباحث کی مانگ کی جاتی رہی تھی اور ایوان کی کارروائی میں خلل پیدا کیا گیا تھا جس کے بعد حکومت نے مباحث سے اتفاق کیا لیکن اس سے قبل وندے ماترم پر مباحث کا فیصلہ کیا گیا ۔ پارلیمنٹ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ملک و قوم کو درپیش انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس مسائل پر مباحث کئے جانے چاہئیں۔ ملک کی ترقی اور ملک کی سلامتی کیلئے مباحث کئے جانے چاہئیں اور عوام کو راحت پہونچانے کے منصوبے بنائے جانے چاہئیں تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو بھی تفرعقہ پروری کے مسائل کو ہوا دینے کیلئے استعمال کیا جا رہ ہے اور ایسے مسائل پر مباحث کئے جا رہے ہیں جن کا قوم کی ترقی سے راست کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مباحث بھی صحتمندانہ انداز میں منعقد نہیں کئے گئے ہیں اور ان نکات کو پیش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جن کی تفصیلی طور پر وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہو ۔ مباحث بھی انتہائی غیر صحتمندانہ ماحول میں کئے گئے ہیں اور تفرقہ پروری کو فروغ دینے والے ریمارکس پر ہی اکتفاء کیا گیا ہے ۔ یہ کہا گیا ہے کہ وندے ماترم کی مخالفت اس لئے کی گئی کیونکہ یہ اندیشے تھے کہ مسلمان اس سے ناراض ہونگے ۔ مسلمانوں کے تعلق سے اس انداز میں تبصرے کئے جارہے ہیں جیسے مسلمان اس ملک کا حصہ نہیں ہیں بلکہ وہ ملک کے مخالفین ہیں۔ خود وزیر اعظم نے ایسے ریمارکس کئے ہیں اور مسلمانوں کو ایک طرح سے قومی دھارے سے لاگ تھلگ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
ہندوستان تمام مذاہب کے ماننے ولوں کا ہے ۔ کسی ایک مذہب کی کوئی اجارہ داری نہیں ہوسکتی ۔ کسی کے شخصی خیالات بھلے ہی کچھ ہوسکتے ہوںلیکن اجتماعی طور پر ہندوستان تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ہے ۔ کسی ایک فرقہ یا مذہب کے ماننے والوںکو حاشیہ پر کرنے کی کوششیں ٹھیک نہیں کہی جاسکتیں اور اس سے سب کو گریز کرنا چاہئے ۔ اگر وندے ماترم کے مسئلہ پر پارلیمنٹ میں مباحث کرنے ضروری بھی تھے تو اس کی اہمیت یا اس کے غیرمتنازعہ ہونے پر بحث کی جاسکتی تھی اور دلائل پیش کرتے ہوئے دوسروںکو قائل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے تھی ۔ تاہم یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جو کچھ بھی ہندو برادری کیلئے پسند ہو وہی سب کیلئے لازمی ہے ۔ یہ سوچ ملک کی دستوری اور قانونی سوچ اور گنجائش کے مغائر ہے اور ایسا کرنے سے سب کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ محض انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ملک کے سکیولر تانے بانوں سے کھلواڑ کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے اور اس کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ ہندوستان چونکہ ایک سکیولر ملک ہے اور اس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کا اور تمام مذاہب کا احترام کیا جانا ہے تو ہر ایک کو اس کی پابندی بھی کرنی چاہئے ۔ کسی ایک مخصوص سوچ یا نظریہ کو تمام دوسروں پر مسلط نہیں کیا جانا چاہئے ۔ قوم پرستی کو مذہب کا اور مذہب کو قوم پرستی کا رنگ نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی دیا جانا چاہئے ۔
حکومت اور برسر اقتدار جماعت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تمام مسائل پر پارلیمنٹ میں مباحث کروائے لیکن مباحث کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ سیاسی اور انتخابی فائدہ حاصل کرنے کیلئے ملک کی پارلیمنٹ میں نامناسب تبصروں اور ریمارکس سے گریز کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ حکومت کا نعرہ چونکہ سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس اور سب کا وشواس ہے تو اس کو عملی طور پر ثابت بھی کیا جانا چاہئے اور قوم اور ملک کو درپیش ہر مسئلہ پر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی مثال پیش کی جانی چاہئے ۔ ہندوستان کئی مذاہب کے ماننے والوںکا گلدستہ ہے اور اس کی یہ انفرادیت برقرار رکھی جانی چاہئے ۔