تلنگانہ‘فون ٹیاپنگ اسکام

   

کسی کی آنکھ بھی پر نم نہیں ہے
کوئی اپنا شریکِ غم نہیں ہے
ویسے تو سیاسی جماعتیں جب کبھی ریاستی اور قومی سطح پرا قتدار حاصل کرتی ہیں وہ اپنے اقتدار کا بیجا استعمال کرتی ہی ہیں۔ کئی مثالیں موجود ہیں جب حکومتوں نے اپنے اقتدار کا سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے بیجا استعمال کیا ہے ۔ کئی حکمران ایسے بھی رہے ہیں جنہوں نے اقتدار کے نشہ میں قوانین اور اصول و ضوابط کی خود دھجیاں اڑائیں اور من مانی اقدامات کئے ہیں۔ انہیںاس طرح کے اقدامات پر سیاسی قیمت بھی چکانی پڑی ہے اور چند دن کے اقتدار کے بعد وہ عوامی غیض و غضب کا شکار بھی ہوئے ہیں۔ آج بھی مرکزی حکومت پر اقتدار کا بیجا استعمال کرنے کے الزامات عام ہوگئے ہیں۔ کئی قائدین کے خلاف مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہراساں اور خوفزدہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ کئی قائدین کو دھمکاتے ہوئے مخالفت سے روک دیا گیا اور جو خوفزدہ نہیںہوئے ان کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں جیل بھیج دیا گیا ۔ موجودہ چیف منسٹرس کو بھی جیل بھیجنے سے گریز نہیں کیا گیا ۔ اسی طرح تلنگانہ میں جب بی آر ایس کی حکومت تھی اور کے سی آر چیف منسٹر تھے وہ بھی اقتدار کے نشہ کا شکار تھے ۔ انہوں نے اقتدار کے نشہ میں کسی کو خاطر میںلانا ضروری نہیں سمجھا ۔ انہوں نے بھی من مانی انداز اختیار کرتے ہوئے مخالفین کو نشانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ اکثر و بیشتر حکمران اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بناتے ہیں لیکن جہاں تک کے سی آر کی بات ہے تو یہ حقیقت اب آشکار ہو رہی ہے کہ کے سی آر نے نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی نہیںبخشا اور ان کے فون بھی ٹیاپ کروائے گئے ۔ حالانکہ یہ سارا عمل غیر قانونی ہے کیونکہ کسی کو بھی فون ٹیپ کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن کے سی آر کی جانب سے عہدیداروں کو استعمال کرتے ہوئے یہ کام کروائے اور اپنی ہی پارٹی کے قائدین اور کچھ رشتہ داروں کے فون بھی ٹیاپ کروانے کا انکشاف ہوا ہے ۔ چیف منسٹر رہتے ہوئے انہوں نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے من مانی کام کروائے تھے جس کا خمیازہ اب شائد انہیں بھگتنا پڑسکتا ہے ۔
مرکزی حکومت پر بھی الزامات عائد ہوئے ہیں کہ اس نے اسرائیلی جاسوسی سافٹ وئیر پیگاسیس کا استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن قائدین کی نگرانی کی ہے ۔ اس کے علاوہ مرکزی وزراء ‘ ججس ‘ صحافیوں ‘ سماجی جہد کاروں اور اعلی عہدیداروں کے فون بھی ٹیپ کروائے جانے کی شکایات عام ہوگئی تھیں۔ یہ معاملہ عدالتوں تک بھی پہونچ گیا تھا ۔ مرکزی حکومت اس معاملے میںکوئی واضح جواب دینے میں کامیاب نہیںہوسکی تھی ۔ اسی طرح بی آر ایس حکومت پر بھی اپوزیشن قائدین کے فون ٹیاپ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا تاہم اب جو انکشافات سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق خود بی آر ایس قائدین کے فون بھی ٹیپ کئے گئے ۔ حد تو یہ ہے کہ چیف منسٹر کے قریبی رشتہ دار قائدین اور ان کے افراد خاندان کے فون ٹیپ کئے جانے کا بھی الزام سامنے آیا ہے ۔ یہ معاملہ انتہائی سنگین ہے اور ساتھ ہی اس بات کا ثبوت بھی کہ سیاسی قائدین کسی بھی عہدہ پر پہونچنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتے اور وہ اپنے مخالفین کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے اقتدار کو دائمی بنانے کیلئے خواتین کی دھجیاں اڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ جس طرح کے الزامات سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق چونکہ کے سی آر کو اپنے ہی پارٹی قائدین اور رشتہ داروں پر بھی بھروسہ نہیں رہ گیا تھا اسی لئے شائد عوام نے بھی ان پر بھروسہ نہیں کیا ۔ اپنے ساتھی قائدین او ررشتہ داروں کی جاسوسی کرواتے ہوئے کے سی آر حکومت نے اپنے ذہنی دیوالیہ پن کا ہی ثبوت دیا تھا ۔
ریاست میں کے سی آر کی حکومت کو زوال آگیا ۔ عوام نے کانگریس کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے اسے اقتدار سونپ دیا ہے ۔ یہ ان حکمرانوں کیلئے ایک مثال ہے جو اپنے اقتدار کو دائمی سمجھتے ہیں اور اس کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ ساتھیوں اور افراد خاندان پر بھروسہ کرتے ہوئے عوام کا اعتماد جیتنے کی کوشش کو ایک صحتمند مقابلہ کہا جاسکتا تھا تاہم منفی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے حکمرانی کے دورانیہ کو توسیع دینے کی کوششوں کو عوام نے مسترد کرتے ہوئے انہیں سبق سکھایا ہے ۔ سیاسی قائدین کو اس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اقتدار کیلئے منفی سوچ اور حکومت عملی اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔