ہم سمجھے ہوئے تھے اسے زخموں کا ہے مرہم
لیکن یہ بجٹ صرف ہے ہندسوں کا تماشہ
تلنگانہ اسمبلی بجٹ سیشن
مرکزی حکومت کی معاشی پالیسیوں کا خمیازہ ریاستی حکومتوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔ حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان الزامات و جوابی الزامات کی بارش میں عوام مہنگائی کی مار سے شرابور ہورہے ہیں ۔ ہر گوشے میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ حکمراں طاقت کی غلطیوں کی وجہ سے عام آدمی متاثر ہورہا ہے ۔ چور ڈاکو ، کرپٹ اور دو نمبر کے سیاستدانوں نے ملک کی معاشی ساکھ کو کمزور کردیا ہے تو ریاستی سطح کی بجٹ پالیسیاں صرف عددی کھیل ثابت ہوتی ہیں ۔ تلنگانہ اسمبلی کا بجٹ سیشن بھی آج سے شروع ہور ہا ہے ۔ مشترکہ ایوان سے گورنر کا خطاب حکومت کی آئندہ سال کی مالیاتی سرگرمیوں ، پالیسیوں اور پراجکٹس کے منصوبوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ لیکن اس مرتبہ تلنگانہ حکومت کو اپنا بجٹ پیش کرنے میں کئی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوگا ۔ عوام پر پڑنے والی مہنگائی کی مار سے ریاستی حکومت کس طرح بچاسکتی ہے یہ دیکھا جائے گا ۔ ریاستی حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ ریاستی عوام کو مہنگائی سے کس طرح بچایا جائے ۔ قیمتوں میں کمی لانے کی تدابیر کیا ہونی چاہئیے ۔ گزشتہ ایک سال سے کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے حکومت کے خزانہ پر بھاری بوجھ ڈال دیا ہے ۔ برقی کی طلب اور گرما کے موسم میں مزید مصارف پر قابو پانا ریاستی حکومت کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے ۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی یہ حکومت اس سال گرما میں عوام کو گرمی کی شدت کے ساتھ برقی کی طلب سے کس طرح نمٹے گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ فی الحال حکومت نے اپنا بجٹ پیش کرنے کی تیاری کی ہے تو اس بجٹ سے ریاستی عوام کو امید کی کرن دکھائی جائے تو اس کے نتائج خاص نہیں ہوں گے ۔ پٹرولیم اشیاء ، پکوان گیاس اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ سے پریشان عوام کو کچھ نہ کچھ راحت دی جاتی ہے تو یہ ریاستی حکومت کا اہم قدم کہلائے گا ۔ حکومت کے لئے بھی ریونیو وصول کرنے کا اہم ذریعہ یہی پٹرولیم اشیاء ہیں ۔ ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ کے ذریعہ عوام کی جیب ہلکی کرتے آرہی حکومت کو اس بار بھی یہی قدم اٹھانے پڑیں توپھر عوام کے لئے یہ بجٹ بھی کوئی اہمیت نہیں رکھے گا ۔ وزیر فینانس ہریش راؤ نے اپنا بجٹ تیار کرنے سے قبل مختلف محکموں کے عہدیداروں سے جائزہ اجلاس لیا ہے ۔ بجٹ سیشن میں ایک ہفتہ تک مباحث ہوں گے اور سیشن کے آخری دن ایوان میں تصرف بل منظور کرلیا جائے گا ۔ حکومت اپنے بجٹ کے ذریعہ مختلف محکموں کو ترقیاتی اور بہبودی کاموں کی فہرست دے گی تو اس کے ساتھ فنڈس مختص کرنے بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ۔ کورونا وباء کے دوران حکومت نے جو اقدامات کئے تھے اس پر آنے والے مصارف سے بھی وہ کس طرح نمٹ پائی ہے وہ اس بجٹ سے معلوم ہوگا ۔ پیر سے شروع ہونے والا یہ بجٹ اس لئے اہم ہے کیوں کہ ریاست میں دو انتخابات کے بعد پہلی مرتبہ منعقد ہورہا ہے ۔ دوباک اسمبلی کا ضمنی انتخاب اور گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو ملے جلے نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ان دونوں انتخابات میں بی جے پی نے اپنا مضبوط اثر دکھایا ہے ۔ بی جے پی بھی بجٹ سیشن میں حکومت کی معاشی پالیسیوں کا جائزہ لے گی ۔ حکمراں پارٹی کے ارکان اور بی جے پی کے ارکان میں یہ بحث چھڑے گی کہ مرکزی حکومت نے ریاست کو ملنے والے مرکزی فنڈس کی اجرائی میں کوتاہی کی ہے تو بی جے پی ارکان کا جواب ان الزامات کی نفی کرے گا ۔ اپوزیشن کانگریس کو ایوان میں اپنے وجود کا احساس دلانے میں ناکامی ہوتی ہے تو پھر اس کے لئے ایک اور بڑا دھکہ ہوگا ۔ /18 مارچ کو پیش کیا جانے والا بجٹ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے تجربات کا نچوڑ ہوگا تو وہ آنے والے دنوں میں ٹی آر ایس کی گرتی ساکھ کو سنبھالنے کی کوشش کریں گے ۔ بی جے پی کی وجہ سے ٹی آر ایس کو پہنچنے والے شدید دھکہ کو مدنظر رکھکر بجٹ میں فنڈس مختص کرنے کے ساتھ فنڈس کی مناسب وقت پر اجرائی اور ادھورے کاموں کی تکمیل ، وعدوں کو پورا کرنے کا مظاہرہ سب سے اہم ہوگا ۔ ریاستی عوام کو اعتماد میں لینے کے لئے وہ مزید کیا وعدے کرتے ہیں یہ بجٹ میں دیکھے جائیں گے ۔ کیوں کہ اب تک کے ان کے وعدوں میں بیشتر ایسے وعدے ہیں جو پورے نہیں ہوئے ہیں جس کے نتیجہ میں ٹی آر ایس کی ساخت پر اثر پڑا ہے ۔ بی جے پی کے طاقتور ہونے کی اصل وجہ بھی چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی بعض ناکامیاں بھی ہیں ۔ اس وجہ سے عوام کے سامنے آنے والی خبروں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت کو اپنی بعض غلطیوں سے کمزور ہونا پڑاہے پھر بھی اس بجٹ کے ذریعہ وہ ریاستی عوام کا بھروسہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ٹی آر ایس کی سیاسی ساخت مزید مجروح نہیں ہوگی۔
