کسی کی زلف پریشاں کسی کا دامن چاک
جنوں کو لوگ تماشہ بنائے پھرتے ہیں
تلنگانہ اسمبلی کا اجلاس 24 ستمبر سے شروع ہونے والا ہے ۔ ریاستی حکومت مختلف امور کو اسمبلی اجلاس میں پایہ تکمیل تک پہونچانا چاہتی ہے ۔ ویسے بھی چھ ماہ میں ایک مرتبہ اسمبلی اور کونسل کا اجلاس طلب کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اب جبکہ گذشتہ اسمبلی اجلاس کیلئے چھ ماہ کا وقت ہونے والا ہے ایسے میں یہ اجلاس طلب کیا گیا ہے تاہم کہا جا رہا ہے کہ حکومت اس اجلاس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف کاموں کی تکمیل کرنا چاہتی ہے ۔ خاص طور پر دلت بندھو اسکیم کیلئے حکومت رقومات فراہم کرنے کیلئے اس سشن میں پیشرفت کرسکتی ہے ۔ حکومت عوامی مقبولیت کے دوسرے اعلانات وغیرہ کے تعلق سے بھی اسمبلی اجلاس میں اعلان کرسکتی ہے تاکہ اسے حضور آباد میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں عوام کے ووٹ حاصل کرنے میں مدد مل سکے ۔ تاہم ریاست کی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں میں حکومت کے تعلق سے کچھ ناراضگی پائی جاتی ہے کیونکہ حکومت نے گذشتہ دو سال کے عرصہ میں مسلمانوں کیلئے عملا کچھ بھی نہیں کیا ہے اور پہلے سے جو اسکیمات تھیں انہیںب ھی عملا ٹھپ کردیا گیا ہے ۔ صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے چیف منسٹر سنجیدہ ہیں۔ یہ سنجیدگی صرف اعلانات کی حد تک دکھائی دے رہی ہے ۔ گذشتہ دو سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ دلت بندھو اسکیم کا اعلان کرتے ہوئے سیاسی فائدہ تو حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اقلیتوں کو پوری طرح سے فراموش کردیا گیا ہے ۔ اوورسیز اسکالرشپ اسکیم کے تحت طلبا برادری کو جو راحت پہونچائی گئی تھی اسے بھی روک دیا گیا ہے ۔ کوئی فنڈز جاری نہیں کئے گئے ہیں۔ حکومت کے تقریبا تمام کام آگے بڑھتے جا رہے ہیں اور حکومت ہر کام میںبے دریغ رقومات خرچ کرتی جا رہی ہے لیکن جہاں اقلیتوں اور مسلمانوں کی بات آ رہی ہے ہاتھ روک لیا جا رہا ہے ۔ حکومت کے نمائندے اور ذمہ داران کی جانب سے بارہا یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ حکومت اقلیتوں کی فلاح و بہبود کیلئے بہت کچھ کر رہی ہے لیکن عمل کے معاملے میں سارے دعوے کھوکھلے ہی ثابت ہو تے جا رہے ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیںکرسکتا کہ سارے ملک میں اور تلنگانہ میں بھی اقلیتوں کی حالت انتہائی ابتر ہے ۔ سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی اور تعلیمی اعتبار سے مسلمان دوسری تمام اقوام سے پسماندہ ہیں۔ ان کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے رقومات وافر مقدار میںمختص نہیںکی جا رہی ہیں۔ اقلیتی بجٹ میں اضافے کے جو دعوے کئے گئے تھے ان کے برعکس بعد میں کورونا اور ریاست کی معاشی حالت کا بہانہ کرتے ہوئے کمی کردی گئی ۔ جو بجٹ مختص کیا گیا تھا اس کو بھی مکمل خرچ نہیں کیا گیا ۔ حکومت بجٹ مختص تو کردیتی ہے لیکن محکمہ فینانس کی جانب سے بجٹ کی اجرائی میں جو ٹال مٹول کی جاتی ہے اور جو رکاوٹیںپیدا کی جاتی ہیںان کی وجہ سے مکمل بجٹ کا استعمال ہی نہیں ہو پاتا ۔ سماجی ‘ معاشی اور تعلیمی حالت کو دیکھتے ہوئے فلاح و بہبود کا سب سے زیادہ بجٹ مسلمانوں کیلئے مختص کیا جانا چاہئے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے ۔ مسلمانوں اور اقلیتوں کے تعلق سے صرف علامتی اور دکھاوے کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ کان خوش کئے جاتے ہیں اور پھر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے ۔ عہدیداروں کی جانب سے پیدا کی جانے والی رکاوٹوں کو تک دور نہیں کیا جاتا ۔ اسمبلی کے اجلاس میں مسلمانوں کیلئے حکومت کو کوئی ٹھوس پالیسی اور اسکیم کا اعلان کرنا چاہئے ۔ جو فوائد دلت اور قبائلی برادری کو فراہم کئے جا رہے ہیں اسی طرح کی کوئی اسکیم مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کیلئے بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سماج کے دوسرے طبقات کے ساتھ انہیں بھی مساوی مواقع مل سکیں۔
اسمبلی میں حکومت کو مکمل اکثریت حاصل ہے ۔ کسی بھی فیصلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو سکتی۔ اس معاملے میں دوسری تمام جماعتیں بھی حکومت سے تعاون کرسکتی ہیں۔ حکومت کو اپنے طور پر پہل کرتے ہوئے کسی ٹھوس فیصلے کا اعلان کرنا چاہئے ۔ جس طرح مستحق دلت خاندانوں کیلئے دلت بندھو اسکیم شروع کی گئی ہے اسی طرح اقلیتوں کیلئے بھی اسکیم کا اعلان ہونا چاہئے ۔ انہیں مختلف شعبہ جات میں حکومت سے تعاون ملنا چاہئے ۔ جن اسکیمات کی رقومات کو روکا گیا ہے انہیں دوبارہ جاری کیا جانا چاہئے ۔ اسمبلی میں اقلیتوں کی معاشی و تعلیمی صورتحال پر تفصیلی مباحث کرتے ہوئے جامع منصوبے کا حکومت کو اعلان کرنا چاہئے ۔
