کوشش اتنی ہے کہ کوئی روٹھے نہ ہم سے
نظرانداز کرنے والوں سے نظر ہم بھی نہیں ملاتے
تلنگانہ بجٹ کے چرچے
تلنگانہ بجٹ 2021-22ء کی پیشکشی کے دو دن بعد بھی حکومت کے ایوانوں میں خوب چرچے ہورہے ہیں۔ کے سی آر حامیوں نے اس بجٹ کو بہترین قرار دیا ہے۔ سنہرے تلنگانہ کے وعدہ کو پورا کرنے کا دعویٰ بھی ہونے لگا ہے۔ یہ بجٹ کیا ہے بلکہ یہ ایک مثالی بجٹ ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو حکومت کی چاپلوسی میں اپنا بجٹ مستحکم کرتے ہیں۔ بجٹ کا تفصیلی جائزہ لینے والوں کے ذہنوں میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں لیکن وہ بھی اس معاملہ میں منفی رائے کو ظاہر کرنے سے کترارہے ہیں۔ وجہ یہی ہوسکتی ہیکہ تلنگانہ میں بی جے پی کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے اس وقت ٹی آر ایس ہی واحد پارٹی ہے۔ اس لئے ریاستی اسمبلی میں وزیرفینانس ہریش راؤ کے پیش کردہ بجٹ میں کئی خوبیاں بتائی جارہی ہیں۔ ریاستی عوام کے لئے بجٹ میں کئی اسکیمات اور پراجکٹس کی خوشخبری ہے لیکن دارالحکومت حیدرآباد خاص کر پرانے شہر کے لئے بجٹ میں کچھ نہیں ہے یہ مقامی جماعت کے ساتھ حکمراں ٹی آر ایس کی دوستی کا صلہ نہیں ہے۔ ریاست کی معاشی ترقی کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اس کا بجٹ میں خاص خیال رکھا گیا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بھی فنڈس مختص کئے گئے ہیں۔ کوروناوائرس اور لاک ڈاؤن کی سختیوں نے تلنگانہ کے مالیاتی موقف کو متاثر کیا تھا لیکن کے سی آر حکومت نے قومی سطح پر معاشی ابتری کے باوجود ریاست تلنگانہ کی معیشت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ریاستی اسمبلی میں جمعرات کو پیش کردہ بجٹ نے تلنگانہ کی سیاست میں مستقبل قریب میں آنے والی تبدیلیوں کی تصویر پیش کردی ہے لیکن اس کے نتائج کے بارے میں عملی اقدامات کے بعد ہی بات ہوگی۔ فی الحال کے سی آر حکومت نے ریاست کی مالیاتی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ہے تو اچھائی کی امید کی جانی چاہئے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ تلنگانہ میں بی جے پی کا کھیل شروع ہوچکا ہے۔ مرکز نے ریاست تلنگانہ کے ساتھ فنڈس کے معاملہ میں آنکھ مچولی سے کام لیا ہے اس کے باوجود تلنگانہ کے مالیاتی امور پر خاص اثر نہیں پڑا کیونکہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے جس مقصد کے لئے تلنگانہ حاصل کیا تھا اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کی سمت کام کرنا شروع کیا ہے۔ وہ بہت سمجھدار اور مہارت سے کھیلنے والے سیاستداں ہیں اور انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر ایسا بجٹ تیار کیا ہے لیکن کبھی کبھی فنڈس کی اجرائی میں مالیاتی درجہ بندی میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ تدبیریں بعض وقت سرکاری انتظامات کی وجہ سے ناکام ہوجاتی ہیں۔ بجٹ میں حوصلہ افزائی کے طور پر 2.30 لاکھ روپئے کا تخمینہ پیش کرتے ہوئے ریاستی تلنگانہ کی ہمہ رخی ترقی کو ذہن میں رکھا گیا ہے۔ بہبودی کاموں اور ترقیاتی اقدامات کے ساتھ طویل مدتی ویژن کو روشناس کرانا ایک اچھی کوشش ہے۔ ملک کی سب سے نوخیز ریاست تلنگانہ نے کے سی آر کی حکومت میں مالیاتی و معاشی شعبہ میں اچھا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے لئے ایک بہترین مثال پیش کی ہے تو اس کی ستائش ہونی چاہئے۔ جب سارا ملک کوروناوائرس کی وجہ مالیاتی خسارہ سے دوچار تھا اور مرکزی سطح پر جی ڈی پی میں 3.8 فیصد منفی نشانہ سامنے آیا تھا تو تلنگانہ نے جی ایس ڈی پی میں 1.3 فیصد مثبت ترقی کا ریکارڈ بنایا۔ اس کی اصل وجہ یہ بتائی گئی کہ چیف منسٹر کے سی آر کے موافق سرگرم اقدامات نے ریاست کی پیداواری صلاحیت کو مستحکم کیا۔ برقی سربراہی میں بہتری سے ریاست کا ہر شہری واقف ہے۔ زرعی شعبہ کے لئے بجٹ میں فراخدلی کا مظاہرہ کیا گیا۔ کسانوں کے قرض معاف کرنے کیلئے 5225 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ اس سے مرکز کے زرعی قوانین سے ناراض کسانوں کو ایک بڑی راحت ملے گی۔ بجٹ میں حکومت نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کا عہد کیا ہے اور 1518 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ آسرا پنشن اسکیم ہو، کلیان لکشمی شادی مبارک اسکیمات اور اسکالرشپ کے لئے مختص فنڈس کو وقت پر جاری کرتے ہوئے ضرورتمندوں کا بروقت خیال کیا جائے تو بجٹ اعلانات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور ٹی آر ایس کی مستقبل کی سیاست بھی مستحکم ہوگی۔ اپوزیشن پارٹیوں بی جے پی اور کانگریس کی نظر میں کے سی آر کا بجٹ کوئی معنیٰ نہ رکھتا ہو لیکن یہ پارٹیاں آنے والے دنوں میں دبے ہونٹ یہ اعتراف ضرور کریں گی کہ ریاستی سطح پر ان کی سیاست کے مستقبل کے امکانات پر ضرب لگا سکتا ہے۔
کوروناوائرس کی دوسری لہر
وزیراعظم نریندر مودی نے گذشتہ روز تمام ریاستی چیف منسٹروں سے ورچول خطاب میں کوروناوائرس کی دوسری لہر کے پھیلنے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس پر قابو پانے کیلئے تدابیر کرنے کا مشورہ دیا۔ کوویڈ۔19 کی اس دوسری لہر کو روکنا نہایت ہی ضروری ہے۔ احتیاطی اقدامات کی کوششوں کو دوگنی کرنی ہوں گی۔ وزیراعظم کا یہ پیام کوروناوائرس اور لاک ڈاؤن کی سختیوں کے ایک سال بعد چیف منسٹروں کو دیا گیا ہے۔ ایک سال گذرنے کے بعد بھی کوروناوائرس کی وبا پر قابو پایا نہیں گیا۔ مہاراشٹرا اور دہلی کے علاوہ دیگر ریاستوں میں وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ملک بھر کے اعدادوشمار کے مطابق جمعہ کے دن کورونا کی دوسری لہر سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 40 ہزار بتائی گئی۔ تلنگانہ میں بھی اسکولی طلباء کی بڑی تعداد متاثر ہورہی ہے۔ اس لئے حکومت نے پہلی تا 8 ویں جماعت کے کلاسیس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اور طلباء کو آگے کی کلاسوں میں پرموٹ کردیا جائے گا۔ کورونا کی ویکسین کی تیاری اور سربراہی کے باوجود کوویڈ پروٹوکول پر سختی سے عمل نہ ہونے سے کیسوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ کوروناوائرس سے بچنے کے لئے ویکسین ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہوا میں پائے جانے والے ناقابل کنٹرول وائرس کو ختم کرنے کیلئے حفاظتی اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی ایک بڑی آبادی تک ویکسین کو پہنچانا حکومت کی ذمہ داری کے ساتھ وائرس کی روک تھام کیلئے حفاظتی اقدامات کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ ایک کثیر آبادی والے ملک کو ویکسین کی جتنی ضرورت ہوتی ہے اس کی تیاری کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ مطلوب ویکسین خوراک کے بغیر تمام شہریوں کو ویکسین دیئے جانے کا محاذ کھول دینے سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ ایک ساتھ ویکسین دینے کا عمل شروع کردیا جانا اور پیداوار کی رفتار سست ہونے سے مارکٹ میں ویکسین کی قلت پائی جائے گی اور پھر کہرام مچ جائے گا۔ یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہیکہ جب تک ہر شہری کو کورونا سے بچانے کی کوشش نہیں ہوتی کوئی بھی شہری محفوظ نہیں سمجھا جائے گا۔
