تلنگانہ بجٹ

   

تجھ سے پہلے بھی کئی زخم تھے سینے میں مگر!
اب کے وہ درد ہے دل میں کہ رگیں ٹوٹتی ہیں
تلنگانہ بجٹ
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کی زبان سے نکلا ہر لفظ عوام کی خیر خواہی کا ضامن ہوتا ہے تو پھر سال 2020-21 کے لیے پیش کردہ بجٹ بھی آیا ۔ عوامی بہبودی اسکیمات پر عمل آوری میں معاون ثابت ہوگا ۔ اس بات کا اندازہ عوام ہی کریں گے۔ اس بجٹ کے تعلق سے حکومت کے نمائندوں نے حد سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ریاستی وزیر فینانس مسٹر ٹی ہریش راؤ نے اسمبلی میں پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے جملہ 1.82 لاکھ کروڑ کا تخمینی بجٹ کے ساتھ یقین دہانی کی کہ ریاست کے عوام کی فی کس آمدنی میں بہتری آئے گی ۔ چیف منسٹر نے اس بجٹ کو متوازن قرار دیتے ہوئے ریاست تلنگانہ کی بہبود کے لیے تیار کردہ ترقی پر مبنی بجٹ بتایا ہے تو عوام کو اسے معقول بجٹ کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا ۔ عوام میں یہ امید پیدا ہوگی کہ چیف منسٹر اپنے بجٹ کے ذریعہ عوام کی ضروریات اور مصارف آمدنی کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے ۔ ریاست کے تمام طبقات کی بہبود کے لیے وضع کردہ منصوبوں کے مطابق ہی بجٹ میں رقومات مختص کئے جاتے ہیں لیکن اس سال کے بجٹ پر عوام کو یہ اندیشہ ہوگا کہ ملک میں معاشی سست روی کے باوجود تلنگانہ ریاست کو متوازن قرار دینے والے چیف منسٹر نے متبادل اقدامات کیا کئے ہیں ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریاست میں کسی بھی ترقیاتی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی ۔ مرکز سے فنڈس کی وصولی میں کمی کے باوجود انہوں نے اپنی بہبودی اسکیمات کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جو قابل فہم بات نہیں ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ چیف منسٹر نے اپنی بعض پسندیدہ اسکیمات کو بروئے کار لانے میں ایمانداری سے کام لیا ہے ۔ بہبودی اسکیمات میں غریب تر طبقات کو راحت پہونچانے کا جہاں تک معاملہ ہے ان کی اسکیمات سے تلنگانہ کے شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں رہنے والے کمزور غریب عوام کو کسی حد تک امداد ملی ہے جس کے نتیجہ میں ہی انہیں انتخابات میں متواتر کامیابی مل رہی ہے ۔ ضعیفی پنشن ہو یا بیواؤں کو دی جانے والی ماہانہ امداد نے چیف منسٹر کو غریب عوام کا مسیحا بنادیا ہے ۔ ملک کی تیزی سے ترقی کرنے والی ریاستوں میں تلنگانہ کے اہم مقام تک لے جانے کا دعویٰ کرنے والی ٹی آر ایس حکومت اپنے عوامی بہبودی اسکیمات کو بغیر کسی سجھوتہ کے آگے لے جانے کا عہد بھی کررہی ہے ۔ لیکن اس نے یہ واضح نہیں کیا کہ آخر وہ ان اسکیمات کے لیے مالیہ کی کمی کو کس طرح دور کرے گی ۔ حکومت نے ریاست کو حاصل ہونے والے مالیہ کو موجودہ 19 فیصد سے بڑھا کر 29 فیصد کرنے کا اعلان کیا ہے تو اس کے ساتھ 29 فیصد مالیہ کس طرح حاصل کیا جائے گا اس کی تفصیلات پیش نہیں کی گئیں جب کہ اس سال ملک معاشی بحران سے دوچار ہونے کا خود ریاستی حکومت دعویٰ کررہی ہے کیا اس طرح کے دعویٰ عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف نہیں ہوں گے ؟ یہ بجٹ حکومت کی نظر میں معقولیت پر مبنی ہے تو اسے یہ بھی بتانے کی ضرورت تھی کہ گذشتہ سال کے بجٹ میں جن پراجکٹس کے لیے بڑی رقومات مختص کی گئی تھیں ان کا انجام کیا ہوا ہے کیوں کہ کئی شعبوں کو یہ شکایت ہے کہ حکومت اپنے سالانہ بجٹ میں بڑی رقومات مختص کرنے کا اعلان کرتی ہے جب ان رقومات کی اجرائی کا معاملہ ہوتا ہے تو ہاتھ کھینچ لیا جاتا ہے ۔ تلنگانہ حکومت نے ریاست کو ترقی کی سطح پر آگے لے جانے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ عوام کو کئی شعبوں میں حکومت سے شکایات ہیں ۔ خاص کر ریاست کی اقلیتوں کے ساتھ کے سی آر حکومت کا رویہ صرف وعدوں کے گرد ہی گھومتا رہا ہے ۔ شہری ترقی کے لیے ٹی آر ایس حکومت نے ہر سال حیدرآباد کو عالمی سطح پر ترقی دینے کا بجٹ بنانے کا اعلان کیا مگر شہر حیدرآباد دن بہ دن کھنڈر بنتا جارہا ہے اور گنجان آبادیوں میں اضافہ کے ساتھ آلودگی کا شکار ہورہا ہے ۔ حکومت نے شہر کی ترقی کے لیے 10 ہزار کروڑ روپئے مختص کرتے ہوئے حیدرآباد کو عالمی درجہ کا شہر بنانے کی بات کہی ۔ موسیٰ ندی کی خوبصورتی کی بھی اسکیم پیش کی گئی ۔ لیکن موسیٰ ندی برسوں سے حکومتوں کی کاغذی اسکیمات میں ہی ترقی کررہی ہے ۔ کے سی آر حکومت کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں کا جائزہ نہیں لیتی اور نہ ہی ریاست کے عوام کو اپنے حکمراں کی خرابیاں نوٹ کرنے کی فرصت ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوام نے اپنی زندگی کی بہتری کا نتیجہ ٹی آر ایس حکومت پر چھوڑ دیا ہے ۔ اس لیے حکومت اب تک کسی بحران اور غلط فہمیوں کے طوفان سے بچ نکل رہی ہے ۔ ریاست کے نوجوانوں کو بیروزگاری بھتہ دینے کا وعدہ کرنے والی حکومت نے گذشتہ سال 500 کروڑ روپئے مختص کر کے ایک پیسہ بھی جاری نہیں کیا ۔ اس سال کے بجٹ میں بیروزگاری بھتہ کا ذکر ہی نہیں ہے ۔۔