تلنگانہ میں برسر اقتدار بھارت راشٹرا سمیتی نے آئندہ اسمبلی انتخابات کیلئے اپنے 115 امیدواروں کی فہرست جاری کردی ہے اور اس میں صرف تین مسلمانوں کو شامل کیا گیا ہے ۔ یہ تین امیدوار بھی وہی ہیںجنہیں گذشتہ اسمبلی انتخابات میں بھی ٹکٹ دیا گیا تھا اور ان میں دو کو جو ٹکٹ دیا گیا ہے وہ محض ضابطہ کی تکمیل ہے کیونکہ جن حلقوں سے ٹکٹ ملے ہیںوہاں سے ان کی کامیابی کے امکانات بالکل بھی نہیں ہیں۔ صرف ایک امیدوار کی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے جو پہلے ہی سے رکن اسمبلی بھی ہیں۔بی آر ایس گذشتہ چند برسوں میں تقریبا ہر مسئلہ میں مسلمانوں سے نا انصافی کی روش پر اتر آئی ہے ۔ہر معاملے میں مسلمانوں کو مایوس کیا جانے لگا ہے اور اب بتدریج ان کی سیاسی اہمیت کو گھٹانے کیلئے کام کیا جا رہا ہے ۔ قانون ساز کونسل ارکان کے انتخاب میں بھی بی آر ایس مسلمانوں کو مایوسک کردیا ۔ انہیںنمائندگی نہیں دی گئی ۔ مسلم ارکان کی معیاد ختم ہونے کے باوجود کسی دوسرے مسلمان کو امیدوار نہیں بنایا گیا ۔ اسی طرح یونیورسٹیز کے تقررات میں مسلمانوں کو نظر انداز کردیا گیا ۔ ایک بھی مسلمان کو وائس چانسلر نہیں بنایا گیا ۔ اسی طرح تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن کے ارکان کا تقرر عمل میں لایا گیا اور ان میں بھی مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے علی الاعلان جس طرح مسلمانوںکو مواقع دینے سے گریز کیا جاتا ہے اسی طرح بی آر ایس خاموشی سے اسی روش کو اختیار کرنے لگی ہے ۔ مسلمانوں سے میٹھی باتیں اور دل بہلاوے کے وعدے کرتے ہوئے انہیں خاموش کیا جا رہا ہے اور ان سے مسلسل نا انصافیاں کی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کو اقتدار ملنے کے ابتدائی چار ماہ میں12 فیصد مسلم تحفظات دینے کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے والے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اب مسلم تحفظات پر بات کرنے تک کو تیار نہیں ہیں۔ بی آر ایس کے مسلمان قائدین بھی انہیں اس وعدہ کی یاد دہانی کی ہمت نہیںرکھتے ۔ کسی میں بھی مسلمانوں کے مسائل پر نمائندگی کرنے کی جراء ت باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ صرف جی حضوری میںخوش اور مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔
جب مسلم تحفظات کی بات کی جاتی ہے تو کچھ گوشوں سے یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مرکزی حکومت نے اس بل کو منظوری نہیں دی ہے ۔ حالانکہ مسلمانوں کے ساتھ دیگر طبقات کو تحفظات میں اضافہ کا بل روانہ کیا گیا تھا ۔ اس کو بھی مرکز نے منظوری نہیں دی تھی تاہم بی آر ایس نے علیحدہ آرڈیننس جاری کرتے ہوئے انہیں تحفظات میں اضافہ فراہم کردیا ۔ اس کے علاوہ ڈبل بیڈ روم مکانات کے الاٹمنٹ میں بھی مسلمانوں کو مناسب حصہ داری نہیں دی جا ری ہے ۔ ڈبل بیڈ روم مکانات کا معاملہ ہو یا پھر اسمبلی امیدواروں کو ٹکٹ کی اجرائی ہو یہ دو ایسے معاملات ہیں جن میں مرکز سے منظوری کا کوئی عذر یا بہانہ پیش نہیں کیا جاسکتا ۔ ڈبل بیڈ روم مکانات کے معاملے میں بھی ریاستی حکومت اپنے طور پر فیصلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو بھی با عزت رہائش فراہم کرنے کیلئے عملی اقدامات کرسکتی ہے ۔ تاہم یہ اسی صورت ممکن ہے جب حکومت اپنے وعدوں میں واقعی سنجیدہ ہو جبکہ بی آر ایس کے معاملہ میں ایسا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ اسی طرح اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ کرنے کیلئے بی آر ایس یقینی کامیابی والے حلقے سے کسی ذمہ دار مسلمان کو ٹکٹ دیتے ہوئے کامیاب بناسکتی ہے ۔ تاہم ایسا بھی بالکل نہیںکیا جا رہا ہے ۔ صرف تسلیاں اور دلاسے مسلمانوں کیلئے رہ گئے ہیں اور وہ بھی حسب ضرورت ۔ جب انتخابات قریب ہوں تو ہی یہ تسلیاں اور دلاسے یا پھر چھوٹے موٹے کھلونے دئے جاتے ہیں ورنہ تو مسلمانوں کے وجود سے ہی انکار کیا جا رہا ہے ۔
اب جبکہ اسمبلی انتخابات کی بگل کسی بھی وقت بج سکتا ہے تو مسلمانوں کو ایک لاکھ روپئے سبسڈی اسکیم کے ذریعہ بہلانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ حالانکہ یہ بھی بہت کم لوگوں کو دی گئی ہے ۔ دلتوں کو دس لاکھ روپئے دئے گئے تھے جبکہ مسلمانوں کو محض ایک لاکھ روپئے دے کر اس کا پروپگنڈہ ضرورت سے زیادہ کیا جا رہا ہے ۔ پہلے سے مسلمانوں کو دستیاب چار فیصد تحفظات کو الٹا کم کرتے ہوئے تین فیصد کرنے کیلئے کچھ عہدیدار سرگرم ہیں اور ان پر بھی حکومت کوئی لگام کسنے کی بجائے ایسا لگتا ہے کہ انہیں کھلی چھوٹ دے رہی ہے ۔ مسلمانوں سے پورا ایک دہا محض زبانی ہمدردی جتائی گئی ہے اور ان کی بہتری کے عملی اقدامات بالکل بھی نہیں کئے گئے ۔ ریاست کے مسلمانوں کو بی آر ایس کے حقیقی عزائم کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔