اس انتشار کا کوئی اثر بھی ہے کہ نہیں
تجھے زوال کی اپنے خبر بھی ہے کہ نہیں
تلنگانہ میں بی جے پی داخلی خلفشار کا شکار ہے ۔ ویسے تو پارٹی کے کئی قائدین اپنے اپنے طور پر گروپس کی قیادت کر رہے ہیں اور ہر گروپ اپنے آپ کو سب سے بہتر مانتا ہے ۔ کئی قائدین ایسے ہیں جو صرف اپنے مفاد کیلئے پارٹی میں جڑے ہوئے ہیں اور انہیں پارٹی کے کام کاج سے زیادہ کچھ دلچسپی نہیں ہے ۔ تلنگانہ بی جے پی میں نئے صدر کے انتخاب کا مسئلہ شائد اسی وجہ سے مسائل کا شکار رہا تھا ۔ طویل وقت سے اس انتخاب کو ٹالا جا رہا تھا ۔ پارٹی کو پہلے ہی سے داخلی خلفشار کے اندیشے لاحق ہوگئے تھے ۔ پارٹی چاہتی تھی کہ نئے صدر کا اتفاق رائے سے انتخاب عمل میں آئے ۔ پارٹی میں اس کیلئے حالات ٹھیک نہیں تھے جس کی وجہ سے مشکل پیش آ رہی تھی ۔ تاہم بی جے پی نے نئے صدر کے انتخاب کیلئے شیڈول جاری کردیا ۔ یہ سب کچھ دکھاوے کیلئے کیا گیا تھا کیونکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے ریاستی صدر کیلئے ایک نام کو پہلے ہی سے طئے کرلیا گیا تھا ۔ یہ ریاستی اور مرکزی قائدین کی مرضی سے طئے کیا گیا نام ہے تاہم کچھ گوشوں کو اس پر اعتراض تھا ۔ اس کے باوجود پارٹی اپنے فیصلے پر عمل کرناچاہتی تھی اور اسی وجہ سے پارٹی کا خلفشار اب سب پر عیاں ہوگیا ہے اور ملعون رکن اسمبلی راجہ سنگھ نے بی جے پی سے استعفی پیش کردیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ راجہ سنگھ نے پہلی بار بی جے پی سے استعفی دیا ہے ۔ وہ پہلے بھی ایسا کرچکا ہے اور پارٹی بھی پہلے راجہ سنگھ کو چھ سال کیلئے خارج کرچکی تھی ۔ بعد میں پھر راجہ سنگھ دوبارہ بی جے پی سے وابستہ ہوگیا اور پھر بی جے پی نے بھی اس کی معطلی کو برخواست کردیا تھا ۔ اس طرح بی جے پی میں داخلی جمہوریت کا بھی فقدان دکھائی دے رہا ہے اور موقع اور ضرورت کے اعتبار سے فیصلوں کوتبدیل کرنے کا بھی رجحان پارٹی میں عام ہوگیا ہے ۔ راجہ سنگھ کی کچھ عرصہ سے بی جے پی قائدین کے خلاف بیان بازیاں جاری تھیں اور وہ اپنے ارادوں کو واضح کر رہا تھا جسے بی جے پی ریاستی یونٹ نے خاطر میں نہیں لایا تھا ۔ اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس نے پارٹی کے داخلی خلفشار کو عوام کے سامنے بھی واضح کردیا ہے اور یہ تاثر صاف ہوگیا ہے کہ تلنگانہ بی جے پی میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔
راجہ سنگھ اور بی جے پی کی ایک دوسرے سے آنکھ مچولی پہلے بھی ہوئی ہے اور اب بھی یہ واضح دکھائی دے رہی ہے ۔ تاہم اصل مسئلہ راجہ سنگھ تک محدود نہیں ہے ۔ پارٹی کے کئی قائدین ایسے ہیں جو ریاستی یونٹ اور ریاستی قیادت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے اور وہ اپنے گروپ کی قیادت کرتے ہوئے کام کر رہے تھے ۔ بی جے پی کی ریاستی قیادت تمام گروپس کو ایک ساتھ لانے میں کامیاب نہیں ہو پائی تھی ۔ راجہ سنگھ کو یہ احساس ہے کہ اسے بی جے پی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور وہ اپنے حلقہ میں شخصی بنیادوں پر کامیابی حاصل کرسکتا ہے ۔ بی جے پی کا یہ احساس ہے کہ راجہ سنگھ نے پارٹی کیلئے کچھ نہیں کیا ہے اور وہ صر ف اپنے حلقہ میں محدود ہے اور وہاں بھی بی جے پی کی مقبولیت کی وجہ سے اسے کامیابی ملتی رہی ہے ۔ راجہ سنگھ ہو یا بی جے پی کی ریاستی قیادت ہو دونوں ہی ایک دوسرے کی بالادستی کو ثابت کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں اور انہیں پارٹی کے تعلق سے کوئی خاص دلچسپی دکھائی نہیں دیتی ۔ ریاستی قیادت کے سامنے اپنے مفادات ہیں تو راجہ سنگھ کا اپنا ایجنڈہ ہے ۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں اور اسی وجہ سے اختلافات نے شدت اختیار کرلی ہے۔ راجہ سنگھ کا الزام ہے کہ پارٹی کارکنوں نے اسے ریاستی قیادت کیلئے اپنی امیدواری داخل کرنے سے روکا ہے ۔ اسی لئے اس نے پارٹی سے استعفی پیش کردیا ہے جبکہ بی جے پی نے اس تعلق سے کسی طرح کی لب کشائی سے گریز کیا ہوا ہے اور خاموشی اختیار کی گئی ہے ۔
اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس نے واضح طور پر داخلی خلفشار کو عوام کے سامنے لا دیا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی میں بھی داخلی جمہوریت کا فقدان ہے ۔ بی جے پی ریاستی قائدین کے مطابق نہیں بلکہ مرکزی قیادت کے احکام پر چل رہی ہے ۔ جمہوریت کی دہائی دینے والی پارٹی اپنی ہی ریاستی قیادت کیلئے جمہوری عمل پر کاربند ہونے میں ناکام ہوگئی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ جو پارٹی داخلی طور پر جمہوریت پر عمل نہیں کرسکتی اور اس کی خود قیادت میں اختلافات ہیں اور خلفشار چل رہا ہے وہ کس طرح سے ریاست کے عوام کی نمائندگی کرسکتی ہے ۔ بی جے پی کو اس طرح کے عوامی سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔