تلنگانہ بی جے پی کی مشکل

   

بی جے پی جنوبی ہند میں اپنے کمزور موقف کو مستحکم بنانے کی کوششوں میں تلنگانہ پر توجہ مرکوز کئے ہوئی تھی ۔ بی جے پی کو امید تھی کہ وہ کرناٹک میں کسی طرح اپنے اقتدار کو بچانے میں کامیاب ہوجائے گی ۔ اسی مقصد کے تحت وزیر اعظم نریندر مودی ‘ وزیر داخلہ امیت شاہ اور کئی دوسرے قائدین نے پوری شدت کے ساتھ کرناٹک میں انتخابی مہم چلائی تھی ۔ بی جے پی کو تاہم کرناٹک میں توقع سے زیادہ کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ بی جے پی کرناٹک میں اقتدار سے محروم ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کو کرناٹک کے بعد تلنگانہ سے کچھ امیدیں تھیں۔ ریاست سے بی جے پی کے چار ارکان لوک سبھا ہیں۔ اس کے علاوہ دو ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی کی توقعات میں اضافہ ہوا تھا ۔ تاہم کرناٹک میں بی جے پی کی شکست سے ریاست میں بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے ۔ پہلے تو اس کے قائدین اور کیڈر کے حوصلے پست ہوگئے ہیں۔ ان کے رویہ میں شدت اور جارحانہ تیور بھلے ہی دکھائی دے رہی ہو لیکن خود پارٹی قائدین کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ تلنگانہ سے بی جے پی کو جو امیدیں وابستہ تھیں وہ شائد پوری نہیں ہو پائیں۔ جہاں عوام میں بی جے پی کے تعلق سے زیادہ کچھ ہمدردی نہیں پائی جاتی وہیں پارٹی قائدین کے داخلی اختلافات کی وجہ سے بھی اس کی توقعات متاثر ہو رہی ہیں۔ بی جے پی کے ریاستی صدر بنڈی سنجے جارحانہ ہندوتوا کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ اشتعال انگیز بیان بازیاں کر رہے ہیں۔ مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نرم ہندوتوا کے قائل دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بی جے پی کے نظریات کو تو آگے بڑھاتے ہیں لیکن ان کے تیور جارحانہ اور سخت نہیں ہوا کرتے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی میں ٹی آر ایس سے شامل ہوئے ایٹالہ راجندر کٹرہندوتوا نظریات کو قبول کرنے تیار نظر نہیں آتے ۔ اس صورتحال میں مرکزی قیادت کو ریاست کے تعلق سے فکر لاحق ہوگئی ہے ۔2024 کے لوک سبھا انتخابات کیلئے بی جے پی کی جو توقعات ہیں ان میں تلنگانہ کو اہم مقام حاصل تھا اور اس سے مایوسی ہونے لگی ہے جس سے مرکزی قیادت فکرمند نظر آ رہی ہے ۔
بی جے پی نے ریاست میں دو اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنے کیڈر میں جوش و خروش پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ ان دو حلقوں میں ایک پر بی جے پی کو امیدوار ایٹالہ راجندر کی وجہ سے کامیابی ملی تھی ۔ دوسرے حلقہ میں صرف بی جے پی نے انتخاب نہیں لڑا تھا بلکہ وہاں آر ایس ایس اور دوسری ہندوتوا تنظیموں نے منظم انداز سے ماحول پیدا کیا تھا ۔ گھر گھر رابطے پیدا کرتے ہوئے عوامی ووٹ حاصل کئے گئے تھے ۔ جب ریاست میں اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات ہونگے تو صرف ایک حلقہ تک ساری مشنری کو مرکوز کرنا ممکن نہیں ہوسکے گا ۔ اس کا بی جے پی کو احساس ہے ۔ مرکزی قیادت نے ریاستی قائدین کو جو ذمہ داریاں دی تھیں وہ ریاستی قائدین پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جس ایجنڈہ کو آگے بڑھانے اور عوام میں ذہن سازی کرنے کی ہدایات دی گئی تھیں وہ کام پورا نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کو آئندہ انتخابات میں مشکل پیش آسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ عوام میں اب کانگریس پارٹی کے احیاء کے تعلق سے باتیں ہونے لگی ہیں۔ ابھی یہ کہا نہیں جاسکتا کہ کانگریس پارٹی کرناٹک کے بعد تلنگانہ میں کس حد تک عوامی تائید حاصل کر پائے گی تاہم یہ ضرور ہے کہ کانگریس کیڈر میں جوش و خروش پیدا ہوگیا ہے ۔ سیاسی حلقوں میں کانگریس کی جیت پر تبصرے ہونے لگے ہیں اور عوام میں بھی اس تعلق سے مباحث شروع ہوگئے ہیں۔ اس کا کچھ اثر تو ضرور ہوگا ۔
بی جے پی تلنگانہ یونٹ کے کچھ قائدین چاہتے ہیں کہ بنڈی سنجے کو ریاستی صدارت سے ہٹا دیا جائے ۔ ایٹالہ راجندر جیسے قائدین بنڈی سنجے کی قیادت میں کام کرنے میں عار محسوس کر رہے ہیں انہیں اپنے نظریات کو ترک کرنا پڑ رہا ہے ۔ ریاستی یونٹ میں گروہ بندیاں بھی بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔اس وجہ سے بھی کیڈر پارٹی کے ایک نکاتی ایجنڈہ کو آگے بڑھانے میں پوری مستعدی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا ہے ۔ ایسے میں مرکزی قیادت کی جانب سے ریاست میں حالات کو بہتر بنانے کیلئے بڑے پیمانے پر کچھ تبدیلیوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلیاں کیا ہوتی ہیں اور اس کے اثرات کیا کچھ برآمد ہوسکتے ہیں۔