ایسے وقت میں جبکہ سارے ملک میں مخالف سی اے اے ‘ این آر سی و این پی آر احتجاج مسلسل شدت اختیار کرتا جا رہا ہے حالانکہ حکومتوں کی جانب سے اسے روکنے اور ناکام بنانے کے علاوہ اسے دوسرا رنگ دینے کی ہر ممکن کوشش جا رہی ہے ‘ تلنگانہ میں بھی وزیر و ٹی آر ایس کے ورکنگ صدر کے ٹی راما راو اور وزیر داخلہ محمد محمود علی نے اعلان کیا کہ این آر سی پر تلنگانہ میں عمل نہیں ہوگا ۔ دونوں کے بیانات کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو دونوں ہی کے بیانات مبہم ہی کہے جاسکتے ہے۔ واضح طور پر یہ نہیں کہا گیا کہ عوام کے جذبات و احساسات کا لحاظ کرتے ہوئے ان قوانین کے خلاف حکومت تلنگانہ اقدامات کریگی ۔ اپوزیشن جماعتوں یا سماجی جہد کاروں کی جانب سے جو احتجاج کیا جا رہا ہے اس میں مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ تلنگانہ میں سی اے اے ‘ این آر سی اور این پی آر پر عمل نہ کرنے کا اعلان کیا جائے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے ۔ اطلاعات میں تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ریاست میں ماہ اپریل سے شروع ہونے والے این پی آر کو نافذ کرنے کے اقدامات کا آغاز بھی کردیا گیا ہے اور عہدیدار اس کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ عہدیداروں کی جانب سے تیاریاں کافی آگے بھی بڑھ گئی ہیں۔ اس صورتحال میں عوام میں جو اندیشے ہیں ان کو دور کرنا تلنگانہ راشٹرا سمیتی اور حکومت دونوں کا فرض بنتا ہے ۔ صرف بیانات دینے سے عوام یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ خاص طور پر اس لئے بھی عوام میں الجھن ہے کیونکہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو نے خود کوئی اعلان نہیں کیا ہے ۔ صرف کے ٹی آر اور محمد محمود علی نے غیر واضح بیان دیا ہے ۔ حکومت نے ابھی تک ان قوانین کی مخالفت میں کوئی واضح موقف پیش نہیں کیا ہے ۔ سارے ملک میں کئی ریاستوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی ریاستوں میں ان قوانین پر عمل آوری نہیں کرینگے ۔ کیرالا اور مغڑبی بنگال نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اقدامات کئے ہیں۔ جہاں کیرالا نے اس قانون کے خلاف اسمبلی میں قرار داد منظور کی ہے اور سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کیا ہے وہیں بنگال نے این پی آر کو نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مرکز کو واقف بھی کروادیا ہے ۔
سیاسی حلقوں میں یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے اور عوام میں بھی اندیشے ہیں کہ جس طرح سے محمود علی اور کے ٹی آر نے بیان دیا ہے وہ در اصل ریاست کے عوام کو بلدی انتخابات کے پیش نظر جھوٹی تسلی دینے کی کوشش ہے ۔ یہ محض زبانی دلاسہ ہے اور انتخابات کے بعد خاموشی سے ان قوانین پر عمل شروع کردیا جائیگا ۔ کئی گوشوں سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ این پی آر در اصل این آر سی ہی کی ابتدائی شکل ہے ۔ اس کے باوجود تلنگانہ حکومت این پی آر پر عمل آوری کی تیاریاں بھی کر رہی ہے ۔ یہ اعلان واضح انداز میں نہیں کیا جا رہا ہے کہ نہ این پی آر پر عمل ہوگا اور نہ این آر سی نافذ کیا جائیگا ۔ حکومت کے ارادوں پر اس لئے بھی شکوک پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ریاست میں عوام کی جانب سے اور مختلف تنظیموں کی جا نب سے جو احتجاج کئے جا رہے ہیں ان کی اجازت تک نہیں دی جا رہی ہے حالانکہ تلنگانہ بھر میں جو احتجاج ہوا ہے وہ انتہائی مثالی رہا ہے اور تشدد کا کوئی معمولی سا بھی واقعہ پیش نہیں آیا ہے ۔ ملین مارچ نے تلنگانہ میں عوامی احتجاج کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اس میں بھی کوئی معمولی سا واقعہ بھی پیش نہیں آیا ۔ ترنگا ریلی میں بھی عوام نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی وہ بھی انتہائی پرامن رہی ہے اس کے باوجود دوسری تنظیموں اور جہد کاروں کو چہاردیواری میں جلسے کرنے تک کی اجازت نہ دئے جانے سے حکومت تلنگانہ کے تعلق سے اندیشے پائے جاتے ہیں۔
ٹی آر ایس کی یہ تاریخ رہی ہے کہ اس نے تین طلاق بل اور دوسرے متنازعہ امور پر مرکز کی نریندر مودی حکومت کی بالواسطہ تائید ہی کی ہے ۔ کسی بھی مسئلہ پر مرکز کی مخالفت سے کے سی آر حکومت نے گریز کیا ہے ۔ ایسے میں ٹی آر ایس کو ریاست کے عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کو یہ واضح تیقن دینے کی ضرورت ہے کہ تلنگانہ میں کسی بھی صورت میں این آر سی یا این پی آر پر عمل آوری نہیں کی جائیگی ۔ اس کیلئے ریاستی اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کرتے ہوئے قرار داد منظور کرنے کی ضرورت ہے ۔ واقعی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہے تو سی اے ا ے ‘ این آر سی اور این پی آر کے تعلق سے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے کی ضرورت بھی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت اگر ایسا نہیں کرتی ہے تو عوام میں اس کے ارادوں کے تعلق سے شکوک و شبہات برقرار رہیں گے اور اس میں عوام حق بجانب بھی رہیں گے ۔