تلنگانہ حکومت کو راحت

   

Ferty9 Clinic

حسین ساگر جھیل میں گنیش مورتیوں کے وسرجن کے مسئلہ پر بالآخر حکومت تلنگانہ کو سپریم کورٹ سے راحت مل چکی ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس سال علامتی وسرجن کی اجازت دیدی ہے ۔ اس سے قبل تلنگانہ ہائیکورٹ نے حسین ساگر جھیل میں پلاسٹر آف پیرس ( پی او پی ) سے بنی گنیش مورتیوں کے حسین ساگر میں وسر جن پر پابندی عائد کردی تھی ۔ عدالت کی جانب سے وسرجن کیلئے علیحدہ انتظامات کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ حسین ساگر جھیل کو آلودگی سے بچانے کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے اور اس میں گنیش مورتیوں کے وسرجن کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ حکومت کی جانب سے حالانکہ آئندہ سال تک متبادل انتظامات کرلینے کا تیقن دیا گیا تھا لیکن ہائیکورٹ نے اس کو قبول نہیںکیا تھا ۔ تلنگانہ حکومت کی جانب سے ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے وقت کی تنگی کو دیکھتے ہوئے اس سال حسین ساگر جھیل میں وسرجن کی اجازت دیدی ہے تاہم ساتھ ہی ریاستی حکومت کو یہ ہدایت بھی دی ہے کہ آئندہ سال کیلئے متبادل انتظامات کرلئے جائیں۔ یہ اجازت صرف جاریہ سال کیلئے ہے اور حکومت کیلئے یہ آخری موقع ہے ۔ اس کے علاوہ یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ وسرجن صرف علامتی ہونا چاہئے اور گنیش مورتیوں کو وسرجن کے فوری بعد جھیل سے نکال دیا جانا چاہئے ۔ انہیں اسی میں پڑے رہنے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے تاکہ جھیل کا تحفظ ممکن ہوسکے ۔ حکومت تلنگانہ نے سپریم کورٹ میں اتفاق کیا کہ آئندہ سال سے حکومت متبادل انتظامات کر لے گی اور اس بار مورتیوں کو نکالنے کیلئے بھی اقدامات کئے جائیں گے ۔ حکومت کے اسی تیقن کے بعد ہی سپریم کورٹ نے اجازت دی ہے تاہم ساتھ ہی عدالت نے اس مسئلہ پر حکومت کی جانب سے ٹال مٹول کی پالیسی پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے اور کہا کہ اس مسئلہ پر حکومت کو قطعیت کے ساتھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جھیل کو آلودہ کرنے کا موقع نہیں دیا جاسکتا ۔ جھیل کا تحفظ کرنے کیلئے ہر گوشے کی جانب سے اقدامات کرنے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ آبی آلودگی نہ ہونے پائے ۔
یہ مسئلہ حالانکہ حساس نوعیت کا ہے اور اس کی اہمیت بھی ہے ۔ چونکہ عدالتی احکام ہیں اور مسئلہ جھیل کے تحفظ کا اور آلودگی کو پھیلنے سے روکنے کا ہے اس لئے اس کو کوئی مخصوص رنگ دئے بغیر سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ گنیش وسرجن کا مسئلہ مذہبی نوعیت کا ہے اسی لئے اس سے وابستہ احساسات کو دیکھتے ہوئے قبل از وقت کوششیں کرتے ہوئے متبادل انتظامات کرنے کی ضرورت تھی لیکن حکومت کی جانب سے ایسا نہیں کیا گیا ۔ مسلسل وقت ملنے کے باوجود بھی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں عدالتوں کے فیصلے سامنے آئے ہیں۔ ہائیکورٹ کی جانب سے پابندی عائد کی گئی ۔ سال حال بھی اجازت دینے سے انکار کیا گیا جس کے بعد سپریم کورٹ تک مسئلہ گیا اور سپریم کورٹ نے بھی صرف جاریہ سال کیلئے اجازت دی ہے اور وہ بھی علامتی وسرجن کرنا ہے اور مورتیوں کو وسرجن کی تکمیل کے بعد جھیل سے نکال دینا ہے ۔ ریاستی حکومت نے اس مسئلہ پر جو ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیا تھا اس کی وجہ سے صورتحال یہاں تک پہونچی تھی ۔ اگر حکومت سیاسی حوصلے اور منصوبے کے ساتھ تمام فریقین کو اعتماد میں لیتے ہوئے مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کی یکسوئی کی کوشش کرتی تو اب تک یہ مسئلہ حل ہوگیا ہوتا اور متبادل انتظامات بھی کرلئے جاتے ۔ لیکن چونکہ حکومت نے صرف ٹال مٹول سے کام لیا تھا اور حساس مسئلہ پر کسی فیصلے سے جھجک رہی تھی اسی لئے یہاں تک مسئلہ پہونچا اور اب سپریم کورٹ نے بھی ایک آخری موقع دیا ہے ۔
چونکہ اس سال کی حد تک مسئلہ حل ہوگیا ہے اور حکومت کو سپریم کورٹ سے راحت مل چکی ہے ایسے میں حکومت کو اس مسئلہ کو پھر التواء کا شکار نہیں کیا جانا چاہئے ۔ جاریہ سال گنیش وسرجن کی تکمیل کے بعد اس پر سنجیدگی سے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ۔ گنیش وسرجن سے جڑے مذہبی جذبات کو دیکھتے ہوئے بہت پہلے سے ذمہ داران کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کی رائے کو پیش نظر رکھتے ہوئے وسرجن کے متبادل انتظامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ سال کوئی مسئلہ پیدا نہ ہونے پائے۔ عدالتی احکام کی تعمیل بھی ہوجائے اور شہر میں امن و امان کیلئے بھی کوئی مسئلہ پیدا ہونے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔