حصار ذات سے نکلا تو ہوگیا معدوم
مرا وجود بکھرتا ہوا لگے ہے مجھے
تلنگانہ حکومت کیلئے چیلنج
تلنگانہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ، ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کو لیکر اپنے اقتدار کے تکبر اور اَنا کا مسئلہ بناکر طول دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔احتجاج اور حکومت کی عدم توجہ دو بنیادی مسائل ہیں اس پر دھیان دیئے بغیر بات پوری نہیں ہوتی۔ احتجاج دراصل حکومت کی عدم توجہ اور بنیادی مسائل کے حل نہ ہونے سے ہوتے ہیں اور انہی مسائل کے پردے میں سیاست بھی کی جاتی ہے، احتجاجی تحریکیں بھی چلائی جاتی ہیں۔ ہڑتال اور احتجاج کا ہتھیار کس طاقت سے کام کرتا ہے اس بات کا چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو کافی تجربہ ہے۔ اس حقیقت کے باوجود چیف منسٹر نے احتجاجی آر ٹی سی ملازمین کو خاطر میں نہیں لایا ہے۔ احتجاجی تحریکوں سے حالات بنتے اور بگڑتے ہیں۔ چیف منسٹر نے آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کو اپنے لئے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہوئے ذاتی مقاصد کے حصول میں تلنگانہ کے عوام کے مفادات کا گلا گھونٹ دیا ہے اور عوام کو ہونے والی تکالیف پر آنکھ بند کرلی ہے۔ سڑکوں پر نعرے لگانے، پولیس کی مار کھاتے ہوئے کانگریس قائدین اور دیگر تنظیموں کے کارکنوں نے آر ٹی سی ملازمین کے حق میں سڑکوں پر مظاہرہ کیا ہے۔ کانگریس کی ریالی نے شہر میں ٹریفک جام کا مسئلہ پیدا کردیا۔ چیف منسٹر سے نمائندگی کرنے کیلئے جب کانگریس قائدین نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو انہیں روک دیا تھا۔ جمہوریت میں احتجاج اور نمائندگی ایک اہم ذریعہ مانے جاتے ہیں۔ جب حکومت اس حق کو بھی استعمال کرنے نہیں دے رہی ہے تو پھر چیف منسٹر کے سی آر کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں کرنی چاہیئے کہ ان کی حکومت کو زوال یقینی ہوگا۔ ان کا طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی بھی فرد کی پرواہ نہیں کرتے ۔ ایک حکمراں جب کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا ہے تو وہ ایک بہتر نظم و نسق فراہم کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوتا ہے۔ ریاست تلنگانہ کے حالات کو دیکھا جائے تو ملازمین کا یوں سڑکوں پر نکل آنا حکومت کے مستقبل کیلئے ٹھیک نہیں مانا جاتا۔ ماضی میں بھی احتجاج اور دھرنے کو ہمیشہ طاقت کے ذریعہ روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب حقیقت میں اس طرح کی کوششوں کو روکنے کے لئے سب سے بڑی طاقت حکومت کی کارکردگی ہوا کرتی ہے تو پھر کے سی آر حکومت کو اپنا گریباں جھانکنا چاہیئے۔ اب تو صرف ایک شعبہ کے ملازمین احتجاج کررہے ہیں، کل اگر تلنگانہ کے عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر آتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی اپنی کارکردگی اور نااہلی ہوگی۔ عام آدمی کی زندگی کو دن بہ دن مشکل بنانے سے لوگ مشتعل ہوں گے۔ حکومت کا کام ہوتاہے کہ وہ عوام کی زندگیوں میں آسانیاں فراہم کرے، جب یہ حکومت سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر اسے گھر کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔ تلنگانہ میں گذشتہ دو ہفتوں سے عوام کو پریشانیوں سے گذرنا پڑ رہا ہے۔ ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کے اس احتجاج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملازمین کے مسائل نازک ہیں ، حکومت کو ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ احتجاج اصل میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ملازمین کی یہ بے چینی ان کی مجبوریوں اور ضرورتوں کو ظاہر کررہی ہے۔ عوام کے پاس اپنے مسائل بیان کرنے کا موقع ہے اس لئے حکومت کو چاہیئے کہ وہ عوام کے مسائل پر فوری توجہ دے۔ اب تک کے سی آر کی حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ ابھی تک اسے سڑکوں پر عوامی غیض و غضبب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حکومت اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ اپوزیشن اتنی طاقتور نہیں کہ وہ حکومت کو آنکھیں دکھاسکے۔ اپوزیشن اپنے ہی مسائل میں گھری ہوئی ہے اور وہ مختلف معاملات میں حکومت کی غلطیوں کو عوامی سطح پر مؤثر انداز میں اُٹھانے میں ناکام رہی ہے۔ کے سی آر حکومت کیلئے یہ موقع اچھاہے کہ وہ ٹی آر ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال جلد سے جلد ختم کرانے کی کوشش کرے ورنہ یہ مسئلہ حکومت کیلئے نازک بن جائے گا اور حکومت اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے بکھری ہوئی اپوزیشن کو طاقت دے گی۔ کانگریس یا بی جے پی کو یہاں طاقت مل جائے تو ٹی آر ایس کا زوال یقینی ہوگا۔ خاص کر بی جے پی انپے قدم جمانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے اور ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال بی جے پی کیلئے ایک نعمت غیر مترقبہ کی شکل میں مل گئی ہے، وہ اس ہڑتال کا سیاسی فائدہ اُٹھاسکتی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے لئے یہ وقت سیاسی مفادات پر توجہ دینے کا نہیں بلکہ یہ وقت حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور فیصلہ کرتے ہوئے حالات کو درست کرنے کا ہے۔