اوروں کی ضرورت پہ نظر جاتی بھی کیسے
ہم اپنے مفادات کے ملبے میں دبے تھے
ملک کی سب سے نئی ریاست تلنگانہ ان دنوں سیاسی جنگ کے میدان میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے ۔ بی آر ایس اور کانگریس میں ریاست میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں راست مقابلہ ہونے والا ہے اور بی جے پی نے ریاست کی صورتحال اور کانگریس کو امکانی سبقت کو قبل از وقت محسوس کرتے ہوئے اپنے قدم پیچھے کرلئے ہیں اور یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ بی آر ایس اور بی جے پی میں خفیہ مفاہمت ہوچکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے بی آر ایس کا راستہ روکنے کی بجائے خود پیچھے ہٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے عوض بی آر ایس پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کا راستہ ہموار کرسکتی ہے ۔ ریاست میں گذشتہ کچھ عرصہ سے یہ منظر نامہ تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ یہاں راست مقابلہ بی آر ایس اور بی جے پی ہی میں ہے اور کانگریس کہیں میدان میں دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ ریاست میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں یہی تصویر پیش کی گئی تھی ۔ تاہم کانگریس نے اس سارے ماحول میں خود خاموش رہتے ہوئے حالات کو اپنے لئے بہتر بنانے کی جدوجہد کی تھی ۔ جس وقت سے کرناٹک میں کانگریس کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی اور بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اس وقت سے ریاست کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے لگا تھا ۔ بتدریج جو تبدیلیاں ہو رہی تھیں وہ کانگریس کے حق میں دکھائی دے رہی ہیں اور بی آر ایس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے محض کانگریس کو روکنے کیلئے بی آر ایس کیلئے راستہ ہموار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بی آر ایس ریاست میں اپنے دو مرتبہ کے اقتدار کو بچانے کی جدوجہد کر رہی ہے تو کانگریس پارٹی ریاست میں اپنی اقتدار پر واپسی کیلئے محنت کر رہی ہے ۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ وہ محض خانہ پری کر رہی ہے یا پھر وسیع تر مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے اپنے آپ کو عوام میں پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ تاہم ایک بات طئے ہے کہ تینوں ہی جماعتوں نے تلنگانہ کو سیاسی جنگ کے میدان میں تبدیل کردیا ہے ۔ اب یہ سیاسی جنگ کس کو کامیاب و کامران بناتی ہے اور کون منہ کی کھاتا ہے یہ وقت ہی بتاسکتا ہے ۔
جس طرح سے تینوں جماعتوں نے اپنی اپنی تیاریوں کو عروج پر پہونچادیا ہے اس کے نتیجہ میں ریاست کا سیاسی ماحول گرم ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ بی جے پی بھی حالانکہ اب اقتدار کی دوڑ میں شامل بالکل بھی نہیں رہ گئی ہے لیکن وہ محض بی آر ایس کی کامیابی کو یقینی بنانا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ ریاست کے دورہ پر ہیں۔ وہ جلسہ عام سے خطاب کرنے والے بھی ہیں۔ وہ پارٹی قائدین میں جوش و خروش پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم اندرونی اور داخلی اختلافات سے بی جے پی کی یہ کوششیں متاثر ہوچکی ہیں۔ خود پارٹی کیڈر میں جوش و خروش کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ کانگریس نے بھی جن پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ان کیلئے اپنی حکمت عملی پر عمل آوری شروع کردی ہے ۔ اس حکمت عملی میں تلنگانہ پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد جنوبی ہند میں بی جے پی کے وجود کو کمزور کرنا ہے ۔ بی جے پی جنوب میں محض کرناٹک تک محدود تھی اور وہاں بھی کانگریس نے اسے اقتدار سے بیدخل کرتے ہوئے شاندار کامیابی درج کی ہے ۔ تلنگانہ میں بھی اگر کانگریس کامیاب ہوتی ہے تو بی جے پی کے جنوبی ہند میں قدم جمانے کے منصوبے بری طرح ناکام ہوجائیں گے ۔ کیرالا ‘ ٹاملناڈو اور آندھرا پردیش میں بی جے پی کا وجود محض کاغذی اور برائے نام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس پارٹی تلنگانہ میں بی جے پی کو کراری شکست دینے کیلئے کمربستہ ہوتی نظر آر ہی ہے ۔
جہاں تک بی آر ایس کا سوال ہے اس نے بھی ایسا لگتا ہے کہ ریاست کے سیاسی ماحول کو بھانپ لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھی اپنے توسیعی منصوبوں کو عملا برفدان کی نذر کردیا ہے ۔ بھارت راشٹرا سمیتی کے نام سے ملک بھر میں مہم چلانے کے نام پر مہاراشٹرا کے دو ایک سرحدی اضلاع میں جلسوںتک خود کو محدود کرلیا ہے ۔ تلنگانہ میں اپنے اقتدار کو بچانے کی فکر بی آر ایس کو زیادہ لاحق ہوگئی ہے ۔ چند ماہ قبل تک ریاست میں کانگریس کے وجود سے انکار کرنے والی بی آر ایس اب صرف ٹارگٹ کانگریس پر عمل پیدا ہونے لگی ہے ۔ بی جے پی پر تنقیدوں کا لب و لہجہ نرم پڑگیا ہے اور بی جے پی بھی کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے بی آر ایس سے نرم برتاؤ کر رہی ہے ۔ جو سیاسی سرگرمیاں تلنگانہ میں چل پڑی ہیں وہ انتہائی دلچسپ ہوتی جا رہی ہیں اور ریاست کے عوام پر اب انتخابات میں اہم فیصلہ کی ذمہ داری عائد ہو رہی ہے ۔
نپاہ وائرس کا خطرہ
جنوبی ریاست کیرالا میں کورونا وائرس نے بہت زیادہ تباہی مچائی تھی ۔ ہندوستان میں کورونا کے ابتدائی مریض بھی کیرالا ہی سے رپورٹ کئے گئے تھے ۔ بعد میں جب اس وائرس نے اپنے پیر پھیلائے تب بھی کیرالا سب سے زیادہ متاثرہ ریاستوں میں شامل تھی ۔ اب ملک میں نپاہ وائرس کے خطرات میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے ۔ یہ وائرس بھی کیرالا سے شروع ہورہا ہے ۔ اب تک کیرالا کے ضلع کوزی کوڈ میں نپاہ وائرس کے چھ سے زیادہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور اس کے تحت عوام میں صحت سے متعلق اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں۔ کیرالا حکومت کی جانب سے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات تو کئے جا رہے ہیں ساتھ ہی مرکزی حکومت نے بھی کیرالا کی مدد کیلئے ایک ٹیم روانہ کی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وائرس کے اندیشوں کا بروقت جائزہ لیا جائے ۔ اس کے تعلق سے معلومات حاصل کی جائیں۔ عوام میں شعور بیدار کیا جائے ۔ اس وائرس کی وجہ سے کیرالا کے کچھ مقامات پر ایک بار پھر لاک ڈاؤن جیسی صورتحال پیدا ہونے لگی ہے ۔ عوام کئی طرح کے اندیشوں اور شبہات کا شکار ہیں۔ عوام میں اس تعلق سے خوف پیدا ہونے لگا ہے ۔ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت دونوں ہی کو چاہئے کہ وہ اس صورتحال پر فوری توجہ مرکوز کرے ۔ اس وائرس کی حقیقت کا پتہ چلائے ۔ اس کے اثرات اور وجوہات پر غور کیا جائے ۔ نہ صرف کیرالا میں شعور بیدار کیاجائے بلکہ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی اس تعلق سے احتیاطی اقدام کرتے ہوئے اس وائرس کو کورونا کی طرح پھیلنے اور ہلاکت خیز ہونے سے روکا جائے ۔