تلنگانہ میڈیا بھی مخصوص طبقہ کے نظریات کو فروغ دے رہا ہے

   

سرکاری احکامات کی اجرائی کے بغیر حیدرآباد کو بھاگیہ نگر ، نظام آباد کو اندور اور محبوب نگر کو پالمور کا نام دیا جارہا ہے

حیدرآباد ۔ ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے میں ذرائع ابلاغ ادارے اپنا اہم کردار ادا کرنے لگے ہیں ۔ جبکہ قوم میں اتحاد و اتفاق کے علاوہ ملک میں امن کی برقراری میں انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی برقراری کیلئے خدمات کی انجام دہی کے بجائے نفرت پھیلاتے ہوئے مخصوص طبقہ کے نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کرنے والے ذرائع ابلاغ کے ادارے ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ بنتے جارہے ہیں ۔ فرقہ پرستوں کے نظریات اور ان کی جانب سے چلائی جانے والی مہم کے اثرات عوام سے زیادہ ذرائع ابلاغ پر نظر آرہے ہیں ۔ اس معاملے میں ریاست تلنگانہ کا ذرائع ابلاغ ادارے ( اردو نہیں ) بھی تقریب اور فرقہ پرستانہ سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں ۔ اترپردیش میں بی جے پی حکومت مسلم ناموں سے موسوم شہروں ریلوے اسٹیشنس وغیرہ کے ناموں کو تبدیل کر رہی ہے ۔ تلنگانہ میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر اپنے آپ کو سیکولر قرار دیتے ہیں ۔ ٹی آر ایس کے تمام قائدین پارٹی سیکولرازم کی بنیاد پر کام کرنے کا دعوی کرتے ہیں ۔ حکومت تلنگانہ نے سرکاری طور پر مسلم ناموں سے موسوم کسی بھی شہر اور ضلع کا نام تبدیل نہیں کیا ہے ۔ لیکن ذرائع ابلاغ کی جانب سے ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کو بھاگیہ نگر ، نظام آباد کو اندور اور محبوب نگر ( پالمور ) کے نام سے تحریر کر رہا ہے ۔ اس کے باوجود حکومت کی خاموشی معنی خیز ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست نظریات کو حکومت کی بالواسطہ تائید حاصل ہے ۔ یہاں تک کہ وزراء اور مختلف جماعتوں کے عوامی منتخب نمائندوں کی جانب سے ان شہروں کو اصلی ناموں کے بجائے تبدیل شدہ ناموں سے پکارا جانے لگا ہے ۔ انتخابات میں بی جے پی کی انتخابی مہم چلانے کیلئے تلنگانہ پہونچنے والے چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ نے بی جے پی کو کامیاب بنانے پر مسلم شہروں اور اضلاع کے ناموں کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ حیدرآباد کو لمبے عرصے سے بھاگیہ نگر پکارا جارہا ہے ۔ نظام آباد لوک سبھا حلقہ سے بی جے پی کی کامیابی کے بعد رکن پارلیمنٹ ڈی اروند نظام آباد کا نام تبدیل کرکے اندور رکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ محبوب نگر کو پالمور کے نام سے پکارا جانے لگا ہے ۔ جس پر سب خاموش ہیں ۔ دراصل حکمراں ٹی آر ایس اور مجلس میں فرینڈلی اتحاد کے اثرات اب دیہی علاقوں تک دیکھے جارہے ہیں ۔ اکثریتی طبقہ بالخصوص نوجوانوں میں ناراضگی پائی جارہی ہے ۔ ٹی آر ایس کے قائدین بھی اسکو محسوس کرنے لگے ہیں لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی چار لوک سبھا حلقوں پر کامیابی کیلئے دوسری اور بھی وجوہات کے ساتھ پر بھی ایک وجہ تصور کی جارہی ہے ۔ خود ٹی آر ایس کے قائدین بھی اسکا اعتراف کر رہے ہیں ۔