تلنگانہ میں اقلیتی بجٹ خوش آئند

   

تلنگانہ میں ریونت ریڈی کی زیر قیادت کانگریس حکومت نے اپنا پہلا مکمل بجٹ پیش کیا ہے ۔ وزیر فینانس و ڈپٹی چیف منسٹر ملو بٹی وکرامارکا نے اسمبلی میںجملہ 2لاکھ 20ہزار 944کروڑ سے زائد کا بجٹ پیش کیا ہے ۔ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد سے بتدریج بجٹ کے تخمینہ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے مختلف شعبہ جات کیلئے خاطر خواہ رقومات فراہم کرتے ہوئے توجہ دی گئی ہے۔ تمام محکمہ جاتک ی مالی حالت کو مستحکم بنانا ضروری ہے کیونکہ گذشتہ دس برسوں میں کئی محکمہ جات پر قرض کا بوجھ بڑھ گیا ہے ۔ کئی محکمہ جات کو بجٹ میںزیادہ رقومات کی ضرورت تھی جس کی تکمیل کیلئے حکومت کی جانب سے کوشش ضرور کی گئی ہے ۔ اسی طرح اقلیتی طبقات کیلئے بھی بجٹ میںرقومات میں اضافہ کیا جانا تھا اور حکومت کی جانب سے 4000 کروڑ روپئے تک اقلیتی بجٹ مختص کرنے کا عہد بھی کیا گیا تھا ۔ بجٹ میں جملہ 3003 کروڑ روپئے اقلیتوں کیلئے فراہم کئے گئے ہیں۔ یہ بجٹ حالانکہ پہلے سے کافی بہتر ہے تاہم اس میں مزید اضافہ کی گنجائش بھی برقرار ہے ۔ اب اقلیتی محکمہ جات اور ان کے ذمہ داران پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اقلیتیوں کیلئے بجٹ میںفراہم کردہ بجٹ کے مکمل خرچ کو یقینی بنائیں۔ اگر بجٹ میں فراہم کردہ رقومات کا پوری طرح سے استعمال کردیا گیا تو پھر مزید رقم حاصل کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔ محض بجٹ میں رقومات کا اعلان کردینا اور ان رقومات کو استعمال کئے بغیر سرکاری خزانہ میں واپس بھیج دینا اقلیتوں کے ساتھ فریب کرنے کے برابر ہے ۔ ویسے تو اقلیتی طبقات حکومت کی کئی اسکیمات میں حصہ داری حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تاہم جو بجٹ خاص اقلیتوں کیلئے فراہم کیا گیا ہے ان کے استعمال کو یقینی بنانے پر اب ساری توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ پہلے سے اقلیتوں کیلئے جو اسکیمات ہیں ان پر موثر ڈھنگ سے عمل آوری کی جانی چاہئے ۔ جو اسکیمات ٹھپ کردی گئی تھیں انہیں کارکرد بنایا جانا چاہئے اور اقلیتوں کی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے نئی اسکیمات بھی شروع کی جانی چاہئیں ۔
ریاست میںریونت ریڈی حکومت کے قیام میں مسلمانوں نے جو سرگرم اور اہم رول ادا کیا ہے اس کے ثمرات اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں تک پہونچائے جانے ضروری ہیں۔ اقلیتی اداروں کی کارکردگی کو مسلسل نظر میں رکھا جانا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ ہر محکمہ اپنے اپنے تفویض اختیارات اور ذمہ داریوں کا بھر پور استعمال کرے اور اقلیتوں کو ممکنہ حد تک فائدہ پہونچایا جاسکے ۔ اگر 3003 کروڑ روپئے کی رقم پوری طرح استعمال کی جاتی ہے تو پھر ضروریات کے اعتبار سے مزید رقم حاصل کرنے کیلئے کوشش کی جاسکتی ہے۔ حکومت کو اس کیلئے رضا مند کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بعد کا مرحلہ ہے ۔ پہلا اور اولین مرحلہ یہی ہے کہ جو رقومات مختص کی گئی ہیں ان کو حاصل کیا جائے ۔ محکمہ فینانس کے ساتھ بہتر تال میل کو یقینی بنایا جائے ۔ رقومات کی ضروریات سے قبل از وقت واقف کروایا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ درکار رقومات بروقت جاری کی جائیں۔ اس کے بعد استعمال میں بھی کوئی کوتاہی نہیں کی جانی چاہئے ۔ زیادہ سے زیادہ افراد کو حکومت کی اسکیمات سے استفادہ کا موقع فراہم کیا جانا چاہئے ۔ جو رقومات مختص کی گئی ہیں ان کے استعمال کے ذریعہ حکومت کو اقلیتی اعلامیہ پر عمل آوری کی سمت بھی راغب کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ اگر پوری سرگرمی کے ساتھ کام نہیں کیا گیا اور تمام ذمہ داریوں کی تکمیل نہیںکی گئی تو پھر حکومت سے رقم مختص کرنا بالکل بے فیض ہوسکتا ہے ۔ استعمال کی ذمہ داری اب اداروں کی ہے ۔
حکومت نے جو رقم مختص کی ہے وہ سال گذشتہ کے مقابلہ میں 36 فیصد زیادہ ہے ۔ بات صرف اقلیتی بجٹ تک بھی محدود نہیں ہے ۔ حکومت کی جانب سے شہر حیدرآباد کی ترقی کیلئے بھی خطیر رقم 10 ہزار کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ ان رقومات سے بھی اقلیتوں کیلئے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ شہر کی حالت میں بہتری اور سدھار آتا ہے تو اس کے ثمرات سے اقلیتیں بھی مستفید ہوسکتی ہیں۔ ہر ذمہ دار اقلیتی گوشے کیلئے اب ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری راست ہو یا بالواسطہ ہو پوری کرے اور جو بجٹ مختص کیا گیا ہے اس کے مکمل اور موثر استعمال کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے ۔