نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سووہ بھی کیا معلوم؟
ہندوستان بھر میں بہار وہ واحد ریاست ہے جہاں ایس آئی آر کیا گیا ہے ۔ ایس آئی آر کے ذریعہ لاکھوںنام فہرست رائے دہندگان سے خارج کئے گئے اور یہ پتہ نہیں کہ کتنے نئے نام اس کے ذریعہ فہرست میںشامل کئے گئے ۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ ایس آئی آر کا عمل اتنا شفاف ہرگز نہیں رہا جتنا اسے رکھا جانا چاہئے تھا ۔ یہ دعوی ہرگز نہیں کیا جاسکتا کہ ایس آئی آر کے ذریعہ بہار میں فہرست رائے دہندگان کوتمام نقائص سے پاک کردیا گیا ہے ۔ یہ دعوے ضرور کئے جا رہے ہیں کہ جتنی خامیاں پہلے سے اس فہرست میں موجود تھیںان سے زیادہ غلطیاں موجودہ فہرست میں پائی جا رہی ہیں۔ بہار میں ایس آئی ار کا مسئلہ ایک الگ مو ضوع ہے اور اس پر بہت کچھ کہا اور سنا جاچکا ہے ۔ اب ہماری اپنی ریاست تلنگانہ میں بھی ایس آئی ار کی تیاریاںبالواسطہ طور پر شروع کردی گئی ہیں۔ مرکزی الیکشن کمیشن کی جانب سے حالانکہ ابھی تک تلنگانہ میں ایس آئی آر کیلئے احکام جاری نہیں کئے گئے ہیں لیکن ریاستی الیکشن کمیشن کے حکام اور عملہ کی جانب سے ایس آئی آر کیلئے تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ جب کبھی مرکزی الیکشن کمیشن کی جانب سے احکام جاری کئے جائیں گے تلنگانہ میں بھی ایس آئی آر کا عمل شروع کردیا جائے گا ۔ جہاں الیکشن کمیشن کی جانب سے ایس آئی آر کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں وہیں ریاست کے عوام کو بھی اپنے طور پر اس کیلئے تیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کوئی ایک بھی اہل ووٹر کا نام فہرست رائے دہندگان سے خارج نہ کیا جاسکے اور نہ ہی کوئی ایسا نام جو تلنگانہ کا شہری نہ ہو فہرست میں شامل نہیں ہونا چاہئے ۔ سیاسی جماعتیں اپنے طور پر اس سلسلہ میں تیاریاں کر رہی ہونگی تاہم خود عوام کو اس معاملے میں سخت چوکسی برتنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے اپنے ووٹوںکی حفاظت ضرور کی جانی چاہئے کیونکہ یہ عمل صرف ووٹوںسے متعلق نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ بالواسطہ طور پر ہندوستانی شہریت کا بھی تعین کیا جا رہا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں واضح کردیا ہے کہ آدھار کارڈ صرف پتہ کا ثبوت ہے شہریت کا ثبوت ہرگز نہیں ہوسکتا ۔
اصل سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کسی کی بھی شہریت کا تعین کرے اور یہ طئے کرے کہ کون ہندوستان کا شہری ہے اور کون نہیں ہے ۔ جہاں تک شہریت کا سوال ہے اس کا تعین صرف مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے کیا جاسکتا ہے ۔ جو شکایات ہوںان کا جائزہ بھی وزارت داخلہ کی جانب سے ہی لیا جاسکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن کا کام صرف ووٹر لسٹ میں ناموں کی شمولیت اورناموں کے حذف کرنے سے متعلق ہے اور اس کیلئے آدھار کارڈ کافی ہونا چاہئے ۔ سپریم کورٹ نے بھی کمیشن کو یہ واضح ہدایت دی تھی کہ آدھار کو قبول کرتے ہوئے ناموںکوووٹر لسٹ میں شامل کیا جانا چاہئے ۔ الیکشن کمیشن کا جہاں تک سوال ہے وہ اچانک ہی کوئی قانون بنا رہا ہے ۔ اچانک ہی کسی قانون کو ختم کیا جا رہا ہے اور چانک ہی کسی قانون کو تبدیل بھی کیا جا رہا ہے ۔ اس سے ملک کے عوام اور خاص طور پر دیہی علاقوںمیں رہنے والے عوام واقف نہیں ہوتے اور ان کیلئے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ اس صورتحال میں سب سے پہلے اور ولین ذمہ داری خود تلنگانہ عوام کی ہے کہ وہ اپنے اپنے ناموں کی شمولیت اور حفاظت کیلئے سرگرم رہیں۔ صرف سیاسی جماعتوںاور کارکنوںپر بھروسہ نہ کریں اور اپنی سرگرمی بھی دکھائیں ۔ الیکشن کمیشن کے عملہ کے ساتھ تعاون کیا جائے اور ان سے بھی تعاون لیا جائے تاکہ فہرست کوبہتر انداز میں تیار کیا جاسکے اور کسی کا نام بھی کسی فہرست سے خارج ہونے نہ پائے اور نہ کسی نا اہل فرد کا نام اس میں شامل ہوسکے ۔
حالانکہ ابھی باضابطہ طور پر تلنگانہ میں ایس آئی آر کا عمل شروع نہیں ہوا ہے تاہم اس کا لیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ وقتوں میں کسی بھی وقت اعلان کیا جاسکتا ہے ۔ عوام کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف ان کے ووٹ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ عوام کی شہریت کی بھی عملا جانچ ہو رہی ہے حالانکہ الیکشن کمیشن اس کا مجاز ہرگز نہیں ہے ۔ کمیشن جس کسی مقصد سے یہ کارروائی کر رہا ہو کمیشن سے تعاون کیا جانا چاہئے تاہم اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے بھی تغافل نہیں برتا جانا چاہئے ۔ معمولی سی لاپرواہی کئی مسائل کا سبب بن سکتی ہے اس لئے وقت رہتے اس کیلئے تیاری کرلینے کی ضرورت ہے ۔
