تلنگانہ میں بھارت جوڑو یاترا

   


تلنگانہ میں کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا مکمل ہوچکی ہے اور راہول گاندھی پڑوسی ریاست مہاراشٹرا میں داخل ہوچکے ہیں۔ راہول گاندھی نے تلنگانہ میں تین سو کیلو میٹر سے زیادہ کا فاصلہ پیدل طئے کیا ہے ۔ انہوں نے کئی مقامات پر عوام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ کارنر میٹنگ سے خطاب کیا ہے ۔ باضابطہ جلسوں سے بھی انہوں نے مخاطب کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ریاست کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہوئے ہیں۔ ریاست کے عوام نے اس یاترا کو جو محبت دی ہے اور پیار دیا ہے اسے وہ تاحیات فراموش نہیں کرپائیں گے ۔ یہ بات ضرور محسوس کی گئی ہے کہ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے نتیجہ میں کانگریس قائدین اور کارکنوں میں جوش و خروش پیدا ہوا ہے ۔ کئی قائدین جو اپنے گھروں تک محدود ہوگئے تھے وہ بھی یاترا میں شامل ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھی عوامی سرگرمیوں کو بحال کرنا شروع کردیا ہے ۔ خود کانگریس کے جو کارکن خاموش دکھائی دے رہے تھے اور جن کے حوصلے پست ہوتے چلے گئے تھے وہ بھی سرگرم ہوتے نظر آر ہے ہیں اور ان کے حوصلے بھی بحال ہونے لگے ہیں۔ ان میں نیا جوش و جذبہ پیدا ہوا ہے اور وہ عوام کے درمیان پہونچنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ راہول گاندھی کی یاترا نے تلنگانہ میں کانگریس کے حلقوں کو کم از کم متحرک کردیا ہے ۔ اس یاترا کے نتائج اور ثمرات کیا ہوسکتے ہیں اس کا انحصار پردیش کانگریس اور اس کے قائدین پر ہے ۔ ریاست میں کانگریس پارٹی اس جو ش و جذبہ کو کس حد تک عوام تک رجوع کرپاتی ہے اور کس حد تک عوامی تائید حاصل کرپاتی ہے یہ بات اہمیت کی حامل ہوگی ۔ راہول گاندھی نے پارٹی کی صفوں میں نئی جان ڈالنے کی کوشش ضرور کی ہے ۔ جو کارکن پژمردگی کا شکار تھے ان میں بھی راہول گاندھی نے نئی جان پھونکنے کی کوشش کی ہے ۔ ریسات کے مسائل سے انہوں نے بڑی حد تک واقفیت حاصل کی ہے ۔ ان مسائل پر انہوں نے اپنے موقف کو بپی پیش کیا ہے ۔ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے عوام کو تسلی اور دلاسہ دینے کی بھی انہوں نے بھرپور کوشش کی ہے ۔
گذشتہ چند برسوں میں یہ بات محسوس کی جا رہی تھی کہ ریاست کے عوام سے کانگریس کا رابطہ ٹوٹ سا گیا ہے ۔ خود کانگریس قائدین بھی عوام کے درمیان پہونچنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے ۔ وہ بھی عوام میں گھلنے ملنے میں پس و پیش کر رہے تھے ۔ عوام خود بھی کانگریس پارٹی سے قربت بحال کرنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہے تھے ۔ راہول گاندھی نے تاہم یاترا کے ذریعہ جو ماحول فراہم کیا ہے وہ کانگریس کیلئے انتہائی سازگار ماحول کہا جاسکتا ہے اور یہ ایک بہترین موقع ہے کہ کانگریس پارٹی عوام سے اپنے کھولے ہوئے رابطوں کو بحال کرسکتی ہے ۔ اپنی خامیوں کو دور کرتے ہوئے ایک بار پھر عوام کے درمیان پوری آب و تاب کے ساتھ پہونچ کر ان کا اعتماد جیتنے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ ان کی تائید حاصل کرنے کیلئے منصوبے بنائے جاسکتے ہیں۔ عوام کے جو مسائل ہیں ان کا بغور جائزہ لیتے ہوئے عوام کی نبض کو سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ عوامی مسائل کو اٹھانے کیلئے ایک جامع پروگرام اور منصوبہ تیار کیا جاسکتا ہے ۔ عوام کو پارٹی کے قریب کرنے کیلئے پروگرامس بنائے جاسکتے ہیں۔ آئندہ انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوامی موڈ کے مطابق اور ان کی ضروریات کے مطابق انتخابی منشور بنایا جاسکتا ہے ۔ عوامی مسائل کو حل کرنے اور پریشانیوں کو دور کرنے کے وعدے کئے جاسکتے ہیں تاکہ عوام ایک بار پھر کانگریس کی جانب راغب ہوسکیں اور پارٹی عوام کی کھوئی ہوئی تائید دوبارہ حاصل کرسکے اور ریاست کی سیاست میں کوئی اہم مقام حاصل کرسکے ۔
جس طرح سے راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے دوران کانگریس کے قائدین ایک دوسرے کے ساتھ نظر آئے اسی طرح انہیں آئندہ بھی اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنا چاہئے ۔ داخلی اور آپسی اختلافات نہ کانگریس قائدین کیلئے بہتر ہوکستے ہیں اور نہ پارٹی کے مفادات کی تکمیل کیلئے بہتر یا موثر ہوسکتے ہیں۔ تمام قائدین کو اپنے اختلافات فراموش کرتے ہوئے پارٹی کے استحکام کو ایک نکاتی ایجنڈہ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک قائدین میں باہمی اتحاد و اتفاق نہیں ہوگا اس وقت تک عوام کی تائید حاصل کرنا بھی آسان نہیں ہوگا اور نہ ہی پارٹی کا احیاء ہوسکتا ہے ۔راہول گاندھی کی یاترا سے جو ماحول بنا ہے اس سے فائدہ اٹھانا اب پردیش کانگریس اور اس کے قائدین پر ہی منحصر ہے ۔